صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیو پر خصوصی ریسرچ نیوز اسٹوریز پر کام کرنے والے صحافی رسول داوڑ کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردوں کا اصل ہدف پولیو ورکرز نہیں بلکہ ان کی ڈیوٹی پر مامور سیکیورٹی اہلکار ہوتے ہیں‘۔
مزید پڑھیں
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے رسول داوڑ کا کہنا ہے کہ ’دہشت گرد بھی بار ہا کہہ چکے ہیں کہ ان کا ہدف پولیو ورکرز نہیں بلکہ ان کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکار ہوتے ہیں۔
رسول داوڑ نے وی نیوز کو بتایا کہ پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکار ان کا آسان ہدف ہوتا ہے کیونکہ ایک تو وہ پورا دن ڈیوٹی پر معمور ہونے کے باعث ہمیشہ بلٹ پروف جیکٹ نہیں پہن سکتے اور دوسرا یہ کہ وہ سیکیورٹی کے دوران نمایاں طور پر نظر آ رہے ہوتے ہیں۔
رسول داوڑ نے بتایا کہ پولیو مہم کے دوران اکثر بچے قطروں سے محروم رہ جاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں پر فیک مارکنگ ہوتی ہے، اس عمل میں پولیو ورکرز کے ساتھ والدین بھی ملوث ہوتے ہیں کیونکہ کچھ والدین اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلانے کے خلاف ہوتے ہیں۔
سی ٹی ڈی کی نئی رپورٹ میں کیا ہے؟
یاد رہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی ) نے حال ہی میں ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق رواں برس خیبرپختونخوا میں پولیو ٹیموں پر15 حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں 13 پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گئے جبکہ 36 پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے۔
سی ٹی ڈی کی رپورٹ کے مطابق باجوڑ میں 9 پولیس اہلکار شہید ہوئے جبکہ 30 زخمی ہوگئے۔ بنوں میں پولیو ڈیوٹی پر تعینات 2 اہلکار ہلاک اور 3 زخمی ہوئے۔ جنوبی وزیرستان اور ٹانک میں 1,1 اہلکار جاں بحق ہوا، اسی طرح بنوں ،خیبر اور لکی مروت میں بھی پولیو ٹیموں پر حملے میں 1,1 اہلکار ہوا۔
سما ٹی وی پشاور کے بیوروچیف محمود جان نے اس حوالے سے بتایا کہ بچوں کی بہت سی بیماریاں ہیں لیکن دہشت گرد کسی بیماری کے خلاف کام کرنے والوں پر حملے نہیں کرتے تاہم انسداد پولیو مہم میں مقامی حکومتی اور بین الاقوامی دلچسپی انہیں اس طرف متوجہ کرتی ہے۔
دہشت گرد چاہتے ہیں ان کے حملے بڑی خبر بنیں
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے محمود جان بابر کا کہنا تھا کہ پولیو ٹیموں پر حملوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے حملے ہیڈ لائنز بنتے ہیں اور دہشت گرد چاہتے ہیں ان کے حملے بڑی خبر بنیں۔
انہوں نے بتایا کہ پولیو کا خاتمہ نہ ہونے کی کچھ اہم وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی رکاوٹ خود کمیونٹی کا رویہ ہے کیونکہ ہمارے ہاں اسے سنجیدہ نہیں لیا جا رہا۔
ان کا کہنا ہے کہ جب تک کمیونٹی لیڈرز، مذہبی رہنما اور پرائیویٹ ڈاکٹرز سب یک زبان ہوکر اس کے خلاف بات نہیں کریں گے، عام لوگ اس کو کوئی مسئلہ نہیں سمجھیں گے تو اس پر قابو پانا مشکل ترین ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پولیو پر قابو نہ پانے کی ایک بڑی وجہ گورننس اور کمیونٹی کی کمزور سوچ ہے۔
پاکستان میں اب تک 200 پولیو کارکنان مارے جاچکے ہیں
ایشیا پیسیفک ہیلتھ نامی جریدے میں مارچ 2023 میں شائع ایک تحقیقی مقالے کے مطابق پاکستان میں اب تک پولیو ٹیم کے 200 تک کارکنان مارے جاچکے ہیں جن میں مرد و خواتین پولیو ورکرز اور ان کی سیکیورٹی کے لیے ڈیوٹی پر تعینات پولیس اہلکار شامل ہیں۔
پاکستان سے پولیو ختم نہ ہونے کے حوالے سے رسول داوڑ نے مزید بتایا کہ اس میں کچھ لوگوں کے مفادات بھی چھپے ہیں جیسا کہ افسران کو مہینے کی تنخواہیں لاکھوں میں ملتی ہیں، اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ یہاں سے پولیو ختم ہو کیونکہ مراعات بند ہوجائیں گے۔
رسول داوڑ سمجھتے ہیں کہ ان کی تنخواہوں پر کٹ لگانا چاہیے اور پولیو ورکرز اور ان کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو مراعات دینی چاہیں، اس سے وہ مزید محنت سے کام کریں گے اور پولیو کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرسکیں گے۔
انسداد پولیو کے ہنگامی دفتر کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2023 میں پولیو ٹیموں پر حملوں میں مجموعی طور پر 7 افراد ہلاک اور 13 زخمی ہوئے تھے۔
محمود جان بابر کے مطابق پولیو قطروں کو مناسب ماحول میں بچے تک پہنچانا بھی ایک چیلنج ہے۔ ایسی خبریں بھی آئی ہیں کہ ان قطروں کو بعض علاقوں میں محفوظ ماحول میں رکھنے والے آلات بھی کسی اور مقصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان قطروں کے بارے میں شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ شاید یہ ناکارہ ہوچکے ہیں۔
2024 میں اب تک کتنے پولیو کیسز رپورٹ ہوئے؟
اس وقت دُنیا میں پاکستان اور افغانستان 2 ایسے ممالک ہیں جہاں سے پولیو کا خاتمہ نہیں ہوا۔ انسداد پولیو پروگرام کی ویب سائٹ کے مطابق پاکستان میں 2024 میں اب تک پولیو کے 5 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے۔
2023میں پاکستان میں کل 6 پولیو کیسز کی تصدیق ہوئی تھی، 3کیسز خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں اور ایک اورکزئی سے رپورٹ ہوا تھا، 2 کیسز صوبہ سندھ کراچی سے رپورٹ ہوئے تھے۔
2022 میں کل 20 بچوں میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی تھی اور سب کا تعلق خیبرپختونخوا سے تھا۔ سب سے زیادہ 17 کیسز شمالی وزیرستان سے رپورٹ ہوئے۔ لکی مروت سے 2 جبکہ جنوبی وزیرستان سے ایک بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی۔