سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔
بنچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
پی ٹی آئی کی طرف سے وکیل علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ دیا تھا، الیکشن کمیشن نے 8مارچ کو پنجاب میں انتخاب کا شیڈول جاری کیا، گورنر خیبر پختونخوا نے عدالتی حکم کی عدولی کرتے ہوئے تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن نے صدر کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے نیا شیڈول جاری کیا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تین بار خلاف ورزیاں کیں۔
اس پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے استفسار کیا کہ الیکشن شیڈول کب جاری ہوا تھا؟
علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن شیڈول 8 مارچ کو جاری کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کے پاس انتحابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، صدر مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کی تاریخ دی، سپریم کورٹ نے 90 دن کے قریب ترین مدت میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا تھا، اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے بہت بعد انتخابات کی تاریخ دے کر بھی توہین عدالت کی گئی، الیکشن کمیشن نے آئین کو یا تو تبدیل یا پھر معطل کر دیا ہے، وزارت داخلہ و دفاع نے سکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے انکار کیا، آئین انتظامیہ کے عدم تعاون پر انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہوں گے؟
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ علی ظفر نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عملدرآمد کرائے۔ اس جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد کرانا ہائیکورٹ کا کام ہے۔ اس علی ظفر بولے کہ دو صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائی کورٹ نہیں سن سکتی۔
وکیل علی ظفر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے، معاملہ صرف عدالت کے حکم پر عمل کا نہیں، سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کر چکی ہے، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی موجود ہے،
اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا،اب سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔
علی ظفر نے کہا کہ پنجاب اور کے پی کے عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ آپ کس عدالتی حکم پر عملدرآمد چاہتے ہیں؟ علی ظفر نےجواب دیا کہ میں یکم مارچ کے حکم نامے کی بات کر رہا ہوں جس میں 90 روز میں انتخابات کا حکم ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یکم مارچ کا حکم عدالتی حکم ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میرے معزز ساتھی دستخط شدہ عدالتی فیصلے کا حوالہ دینا چاہ رہے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو بدل سکتا ہے؟ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو بدل دیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے بھی موجود نہیں جن میں اس طرح الیکشن کی تاریخ تبدیل کی گئی ہو، ہم نے دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس صدر کی دی گئی تاریخ کو بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں۔
جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے، عدالت حکم دے چکی ہے کہ حکومت کسی بھی وجہ سے انتخابات میں تاخیر نہیں کر سکتی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابات میں ایسی وجوہات سے تاخیر ہوئی ہو۔ انہوں نے استفسار کیا کہ انتخابات کے لیے فنڈز کس نے فراہم کرنے ہیں؟
جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ سپریم کورٹ آنے سے پہلے ہائیکورٹ سے رجوع کیوں نہ کیا گیا؟ انتحابات سے متعلق کیس ہائیکورٹ میں بھی زیر التوا تھا، کیا سپریم کورٹ اس کیس کو سن بھی سکتی ہے یا نہیں؟
اس پرجسٹس منیب اختر بولے کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا اس لیے عدالت اس کیس کو سن سکتی ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس کا جو فیصلہ تھا اس پر تو تمام ججز کے دستخط نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے خیال میں معزز جج جمال خان صاحب عدالتی فیصلے پر دستخط نہ ہونے کی بات کر رہے ہیں، سپریم کورٹ کے اکثریتی حکم کی سمری پر ججز کے دستخط ہیں۔انہوں نے کہا کہ 1988 میں بھی الیکشن کی تاریخ بڑھائی گئی، کیا انتخابات کو اتنے لمبے عرصہ کےلئے التواء میں رکھا جاسکتا ہے، عدالتی فیصلے پر عملدرآمد معاملہ کا ایک پہلو ہے، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر 40 دن انتخابی تاریخ کو بڑھایا گیا، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر انتخابی تاریخ کو کسی نے چلینج نہیں کیا، یہ بنیادی حقوق کا معاملہ بھی ہے، سپریم کورٹ کورٹ آف لاء ہے، صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق ہیں، کیا آئین میں نگران حکومت کی مدت ہے؟ کیا انتخابات میں توسیع ہو تو نگران حکومت کی مدت میں توسیع نہیں ہوگی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کیا صدر مملکت نے 30 اپریل کی جو تاریخ دی وہ 90 روز کی معیاد کے اندر تھی؟
جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلہ پر عمل کرکے 3 تاریخیں تجویز کیں، اس کے بعد صدر مملکت نے 30 اپریل کی تاریخ دی، تاریخ کے بعد الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان کیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام پانچ ججز کے دستخط ہیں، ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے دو فیصلے ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے؟
علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 254 کا سہارا کام کرنے کے بعد لیا جا سکتا ہے، ایسا نہیں ہو سکتا کہ کام کرنے سے پہلے ہی سہارا لے لیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 254 آئین میں دی گئی مدت کو تبدیل نہیں کر سکتا، آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، پنجاب اور خیبرپختونخوا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی۔