امریکا میں ایک خاتون پر 3 سالہ فلسطینی بچی کو پانی ڈبو کر قتل کرنے کی کوشش پر امریکی خاتون پر فرد جرم عائد کر دی گئی۔
مزید پڑھیں
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ واقعہ 19 مئی کو ریاست ٹیکساس کے علاقے یولیس، ٹیکساس میں پیش آیا جسے شہری حقوق کی تنظیموں کی جانب سے نسلی پرستی کا واقعہ قرار دیا جارہا ہے۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز ٹیکساس کے مطابق، 42 سالہ ملزمہ الزبتھ وولف نے فلسطینی بچی پر اس کے خاندان کے اپارٹمنٹ کمپلیکس میں سوئمنگ پول میں حملہ کیا۔ اس وقت بچی کی والدہ اور اس کا 6 سالہ بھائی بھی موجود تھے۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ واقعہ کے روز بچی کی والدہ مسز ایچ حجاب پہنے سوئمنگ پول کے قریب اپنے بچوں کو دیکھ رہی تھیں کہ اچانک ایک سفید فام امریکی خاتون سوئمنگ پول ایریا میں داخل ہوئی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ امریکی خاتون نے مسز ایچ کے خلاف مبینہ طور پر نسل پرستانہ جملے کسے اور سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا کر کنارے پر موجود بچوں کو پکڑ کر گہرے پانی میں لے گئی۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز کے مطابق، مسز ایچ اپنے بچوں کو بچانے کے لیے سوئمنگ پول میں کود گئیں، جہاں الزبتھ وولف نے ان کے سر سے اسکارف کھینچ کر دور پھینک دیا۔
واقعہ کے بعد مقامی پولیس نے الزبتھ وولف کو گرفتار کرلیا تھا۔ مسز ایچ نے اس واقعہ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا، ’ہم فلسطینی اور امریکی شہری ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنے بچوں کو لے کر ایسی کسی جگہ لے جاؤں جو محفوظ ہو، میرے ملک کو جنگ اور ہمیں یہاں نفرت کا سامنا ہے۔‘
انہوں نے کہا، ’میری بیٹی خوفزدہ ہے، میں جب بھی اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولتی ہوں تو وہ بھاگ کر چھپ جاتی ہے اور کہتی ہے کہ وہ (امریکی) عورت آجائے گی اور اسے پانی میں ڈبو دے گی۔‘
ٹیکساس ایوان نمائندگان میں یولیس سے منتخب رکن سلمان بھوجانی کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے علاقے میں پیش آنے والے نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے اس واقعہ سے گہرا صدمہ پہنچا ہے۔
واضح رہے کہ حماس اسرائیل جنگ کے بعد امریکا میں نسل پرستی کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ گزشتہ برس نومبر میں ورمونٹ میں ایک یونیورسٹی کیمپس کے قریب 3 فلسطینی نوجوانوں کو گولی مار کر زخمی کردیا گیا تھا۔
اس واقعہ سے ایک ماہ قبل ایک 71 سالہ امریکی شخص نے چاقو کے وار کرکے ایک 6 سالہ فلسطینی بچے کو قتل اور اس کی ماں کو زخمی کردیا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم نے غزہ جنگ کے ردعمل میں ایسا کیا تھا۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس کے آخری 3 ماہ کے دوران انہیں نسل پرستی سے متعلق ساڑھے 3 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئی تھیں۔