مفت آٹا اسکیم کیوں جان لیوا ثابت ہورہی ہے؟

منگل 28 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مفت آٹا لینے کے لیے سخت شرائط کی وجہ سے 60 فیصد لوگ خالی ہاتھ گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں اور 75 فیصد آٹا واپس فلور مل چلا جاتا ہے جبکہ اب تک سستے آٹے کے حصول کی خاطر 7 اموات ہوچکی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مفت آٹا فراہم کرنے کی یہ اسکیم عوام کے لیے کس قدر مفید ثابت ہو رہی ہے اور اس میں مستحقین کو مسائل کیا درپیش ہیں؟

وزیراعظم شہباز شریف نے ماہِ رمضان میں 10 کروڑ افراد کے لیے 53 ارب کی سبسڈی سے مفت آٹا اسکیم کا آغاز کیا تھا جس کے تحت 60 ہزار سے کم آمدنی والے خاندانوں کو آٹے کے 10 کلو والے 3 تھیلے دیے جانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد مفت آٹے کے حصول کے لیے صبح سے مفت آٹا پوائنٹس پر لوگوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں، تاہم سخت شرائط پر پورا نہ اترنے کے باعث 60 فیصد سے زائد لوگوں کو آٹا فراہم نہیں کیا جا رہا ہے اور گھنٹوں لائن میں کھڑے افراد کو جب اپنی باری پر آٹا نہیں ملتا تو وہ شور شرابہ کرتے ہیں جس سے کہیں دھکم پیل، پولیس پر پتھراؤ اور کہیں لڑائی ہوجاتی ہے۔

ایسے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں اور گزشتہ روز بھی مظفرگڑھ میں پولیس نے بدنظمی پر لاٹھی چارج کیا جس کے سبب شاہ جمال میں بھگدڑ مچنے سے متعدد خواتین بے ہوش ہوگئیں۔

ایسے ہی واقعات میں اب تک 7 افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ مظفر گڑھ میں بھگدڑ مچنے سے 60 سالہ زہرہ بی بی اس دنیا سے چلی گئیں، بھکر میں آٹے کی قطار میں کھڑے 66 سالہ الہیٰ بخش دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئے جبکہ ملتان، فیصل آباد اور کوٹ ادو میں آٹے کے انتظار میں سخت دھوپ میں روزہ رکھ کر قطار میں کھڑے 3 افراد دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئے۔ خیبرپختونخوا کے علاقے بنوں میں فلور مل کے باہر متعدد افراد قطار میں کھڑے تھے اور اس دوران دیوار گرنے سے بھی ایک شخص جاں بحق ہوا اور 6 زخمی ہو گئے، دوسری جانب چارسدہ میں دھکم پیل سے بھی ایک شخص جاں بحق ہوگیا۔

مفت آٹے کے حصول کے لیے شرائط

وزیراعظم محمد شہباز شریف کی مفت آٹا اسکیم کے تحت آٹے کے حصول کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے اور اگر کوئی اس پروگرام کے تحت رجسٹرڈ نہیں وہ رجسٹریشن کروا کر 3 دن کے بعد آٹا حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ جس آٹا پوائنٹ سے آپ آٹا لینا چاہ رہے ہیں، وہاں کا پتہ آپ کے قومی شناختی کارڈ پر درج ہونا چاہیے۔ ایک خاندان کا ایک فرد آٹا لے سکتا ہے، اس فرد کی ملکیت میں کوئی گاڑی، موٹر سائیکل یا گھر نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کا کسی بینک میں اکاؤنٹ ہونا چاہیے۔

آن لائن سسٹم میں خرابی، احتجاج کا باعث

مفت آٹا پوائنٹس پر آٹا دینے والے آن لائن سسٹم میں انٹری کرنے کے بعد ہی آٹا دینے کے پابند ہیں تاہم متعدد پوائنٹس پر آن لائن سسٹم کی خرابی یا سسٹم ڈاؤن ہونے کے باعث گھنٹوں قطاروں میں کھڑے افراد کو آٹا فراہم نہیں کیا جاتا اور شام کو آٹے والی گاڑی  بغیر آٹا تقسیم کیے فلور مل پر واپس چلی جاتی ہے۔

آن لائن سسٹم کی خرابی پر بھی متعدد بار احتجاج کیا جاچکا ہے۔ گزشتہ روز مردان میں آٹے کی تقسیم کے دوران آن لائن سسٹم خراب ہونے پر قطار میں کھڑے افراد نے اسپورٹس کمپلیکس میں توڑ پھوڑ کی اور مرکزی شاہراہ بلاک کردی جس پر پولیس نے ہوائی فائرنگ کی اور لاٹھی چارج کیا جس کے دوران 10 شہریوں کے شدید زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

60 فیصد سے زائد لوگوں کو آٹا فراہم نہیں کیا جاتا

وی نیوز نے راولپنڈی، مری، کہوٹہ اور گوجر خان کے مفت آٹا پوائنٹس کا تفصیلی جائزہ لیا اور ان پوائنٹس پر آٹا فراہم کرنے والی فلور ملز کے مالکان اور عملے سے تفصیلی گفتگو کی۔

اس دوران یہ دیکھا گیا کہ رمضان میں شروع کے ایّام میں لوگوں نے بڑی تعداد میں مفت آٹا پوائنٹس کا رخ کیا اور لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کیا، تاہم باری آنے پر ان کو کسی بھی ایک شرط پر پورا نہ اترنے پر آٹا فراہم نہیں کیا گیا جس پر اب مفت آٹا پوائنٹس پر کھڑے ہونے والے لوگوں کی تعداد میں کمی دیکھی گئی ہے۔

فلور ملز کو 70 فیصد کم آٹا لانے کی ہدایت

راولپنڈی اور اسلام آباد کی فلور ملز کا کہنا ہے کہ ‘حکومت نے ہمیں 10 کلو آٹے کے ایک ہزار تھیلے لے کر مفت آٹا پوائنٹ پر پہنچنے کا کہا ہوا ہے تاہم صبح 7.30 سے شام 4 بجے تک بھی کبھی 150 یا 200 اور کبھی اس سے بھی کم آٹا تقسیم ہوتا تھا لہٰذا اب حکومت نے ہمیں ہدایت دی ہے کہ آپ روزانہ 300 تھیلا لے کر پوائنٹ پر آیا کریں تاہم ان 300 تھیلوں کی تقسیم بھی نہیں ہو پارہی ہے’۔

فلور ملز مالکان کا کہنا ہے کہ ‘آٹا لینے والوں کی تعداد تو بہت زیادہ ہوتی ہے تاہم شناختی کارڈ چیک کیے جانے پر معلوم ہوتا ہے کہ قطاروں میں کھڑے متعدد افراد مفت آٹے کے حصول کے حقدار ہی نہیں ہیں جبکہ بعض اوقات آن لائن سسٹم کی خرابی کے باعث بھی آٹا تقسیم نہیں کیا جاتا۔ مری میں آٹا فراہم کرنے والی گاڑی نے 3 دن آٹا پوائنٹ پر کھڑے ہوکر ایک ہزار تھیلے تقسیم کیے ہیں’۔

کیا حکومت نے فری آٹا اسکیم کے آغاز سے قبل تیاری کی تھی؟

وزیراعظم کی مفت آٹا اسکیم کی وجہ سے لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات جاننے کے لیے وی نیوز نے وفاقی حکومت، پنجاب کی نگران حکومت اور اس اسکیم کے سرپرست سمیت سے متعدد عہدے داران سے رابطہ کیا۔

رابطہ کرنے پر ذرائع نے بتایا کہ حکومت ماہانہ 60 ہزار سے کم آمدنی والے افراد کے لیے یہ اسکیم لائی تھی تاہم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت کسی بھی ادارے کے پاس 36 ہزار سے کم آمدنی والے افراد کا ڈیٹا تو دستیاب ہے تاہم 60 ہزار سے کم آمدنی والے افراد کا مکمل ڈیٹا ہی نہیں ہے۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ذرائع نے بتایا کہ بی آئی ایس پی کو پنجاب حکومت نے درخواست کی ہے کہ آٹا فراہمی سینٹر کے ساتھ ہی کاؤنٹر بنایا جائے تاکہ غیر رجسٹرڈ افراد کو فوری رجسٹر کرکے آٹا دیا جا سکے تاہم بی آئی ایس پی اس پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ بی آئی ایس پی کے نامکمل ڈیٹا کی وجہ سے عوام تک مکمل ریلیف نہیں پہنچ پارہا ہے۔

ذرائع نے وی نیوز کو بتایا کہ حکومت نے 53 ہزار 691 میٹرک ٹن گندم اس اسکیم کے لیے رکھی ہے۔ آٹے کی تقسیم میں درپیش مسائل کے باعث بہت زیادہ تعداد میں آٹا بچ رہا ہے اور اگر آٹا لینے کے لیے آنے والے تمام افراد کو بھی آٹا دے دیا جائے تو بھی آٹا بچ جائے گا۔

مفت آٹا اسکیم کے گندم اور عام آٹے پر اثرات

وزیراعظم کی مفت آٹا اسکیم سے قبل آٹے پر سبسڈی دی جا رہی تھی جس کے تحت 10 کلو والے آٹے کا تھیلا 648 روپے میں دستیاب تھا۔ راولپنڈی اسلام آباد کی فلور ملز کو حکومت کی جانب سے گندم پر سبسڈی دی جاتی تھی اور فلور ملز 10 کلو آٹے کے 2500 تھیلے مارکیٹ میں فراہم کرتی تھی اور یہ آٹا بغیر قطاروں میں کھڑے مختلف مقامات پر کھڑی گاڑیوں اور کچھ مخصوص دکانوں سے باآسانی حاصل کیا جاتا تھا اور یہ تمام آٹا شام تک فروخت ہوجاتا تھا۔

مگر مفت آٹا اسکیم کے بعد اب 640 والے آٹے کے تھیلے کی قیمت 1160 کردی گئی ہے اور فلور ملز ایک ہزار تھیلے ہر روز بنا رہی ہیں تاہم زائد قیمت کے باعث 400 تھیلے بھی ایک دن میں فروخت نہیں ہو رہے جبکہ دوسری طرف گندم کا ریٹ 4300 سے بڑھ کر 5200 ہوگیا ہے اور گندم مارکیٹ میں نایاب ہی ہوگئی ہے۔

مفت آٹا اسکیم کے بعد مڈل کلاس لوگوں کے لیے 15 کلو آٹے کا تھیلا جو 1900 روپے کا تھا اب 2200 سے اوپر چلا گیا ہے جبکہ چکی کا آٹا 150 روپے کلو سے بڑھ کر 170 روپے کلو تک پہنچ گیا ہے۔

مفت آٹا اسکیم پر عوامی رائے

وزیراعظم شہباز شریف کی مفت آٹا اسکیم کو سیاسی حلقوں میں تو پسند کیا گیا ہے تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ آٹا حاصل کرنے والوں کا بھی کہنا ہے کہ ایک تھیلے کے لیے ماہِ رمضان میں دھوپ میں گھنٹوں تک قطار میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔

مفت آٹے کے حصول میں ناکام ہونے والوں کا کہنا ہے کہ ان ساری کوششوں کے باوجود بھی حکومت کو یقین نہیں آرہا کہ ہم غریب ہیں۔ اس سے اچھا تو 640 روپے والا آٹا تھا جو قدرے مہنگا ضرور تھا تاہم لائن میں لگے بغیر اور اپنا دن برباد کیے بغیر مل جاتا تھا۔ اگر حکومت نے سبسڈی دینی تھی تو وہی 640 روپے والے آٹے کے تھیلے کو 300 روپے میں کردیا جاتا۔

مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری کا کہنا ہے کہ ‘بدقسمتی سے زرعی ملک ہونے کے باوجود مفت آٹے کے نام پر عوام کو ذلیل و خوار کیا جا رہا ہے جبکہ وزیراعظم و وزرا فوٹو سیشن میں مصروف ہیں اور آٹے کے حصول کے لیے میلوں لمبی قطاروں میں کھڑی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور بزرگوں کی آہ ان ظالم حکمرانوں کو لے ڈوبے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp