بجٹ کی اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو حسب معمول پہلے فون اٹھایا۔ ہماری جامعہ کے ایک واٹس اپ گروپ میں ہنگامہ برپا تھا اور گرما گرم بحث چل رہی تھی۔ بجٹ کی آمد سے قبل میں اور میرے ہم پیشہ دوست خوش گمان تھے کہ افراط زر کے پیش نظر ملازمین کی تنخواوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا۔ معلوم ہوا کہ نئے بجٹ میں بظاہر نظر نہ آنے والی کئی ایسی تجاویز شامل ہیں جو تنخواہ دار طبقے بالخصوص اساتذہ اور محققین کی معاشی مشکلات میں کئی گنا اضافے کا سبب بنیں گی۔
سالہا سال سے، کل وقتی اساتذہ اور محققین کو ٹیکس کی مد میں جزوی چھوٹ حاصل تھی۔ یہ حکومت کا ایک حوصلہ افزاء قدم تھا جس کی وجہ سے نہ صرف ہمارے معاشی مسائل میں کچھ سہولت تھی بلکہ یہ اقدام ہمیں یکسوئی سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں بھی معاون اور مددگار تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ایک یونیورسٹی معلم کا پیشہ پرکشش تھا اور با صلاحیت لوگ اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کی طرف راغب ہوچلے تھے۔ جب میں نے یونیورسٹی میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا تو یہ چھوٹ تقریباً ستر فیصد کے قریب تھی جسے چند برس قبل گھٹا کر 40 فیصد کر دیا گیا۔ نئے وفاقی بجٹ میں اس چھوٹ کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ بظاہر اس خاتمے کے پیچھے عالمی مالیاتی ادارے کی تجاویز ہیں جن کا مقصد ٹیکس وصولی میں اضافہ ہے۔ تاہم اس وقتی مالی فائدے کے دوررس نتائج بالکل نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔
تعلیم اور تحقیق کسی بھی معاشرے کی سماجی، معاشرتی اور معاشی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اساتذہ اور محققین نہ صرف مستقبل کے معماروں کی تعلیم اور تربیت کے ذمہ دارہوتے ہیں بلکہ وہ جدت اور اختراع کی بدولت ایک علمی معیشت کی داغ بیل بھی ڈالتے ہیں۔ ایک مضبوط تعلیمی اور تحقیقی ڈھانچہ ملک کو درپیش بے شمار چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ناگزیر ہے، جن میں معاشی جمود، صحت کی سہولیات کا بحران اور ماحولیاتی تبدیلیاں شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں باصلاحیت محققین کو ترغیب دلانے کے لیے ٹیکس کی شرح میں خاطر خواہ کمی رکھی گئی ہے۔ مثلاً نیدرلینڈ میں محققین کی تنخواہ کے تیس فیصد حصے پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا جبکہ امریکہ میں اداروں کو تحقیق کی مد میں متناسب ٹیکس کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی ممالک میں تحقیقی گرانٹس اور فیلو شپس پرکوئی انکم ٹیکس موجود نہیں۔
ٹیکس سبسڈی کے خاتمے کا ایک نقصان یہ ہو گا کہ اساتذہ اور محققین کی ٹیکس سلیب میں تبدیلی ہو گی جس کی وجہ سے ان کی مجموعی آمدنی میں کم و بیش 30 سے 35 فیصد کمی متوقع ہے۔ یونیورسٹیاں، جو پہلے ہی شدید مالی دباؤ کا سامنا کر رہی ہیں، اب اساتذہ اور محقیقن کو راغب کرنے اورملازمت میں رکھنے پر مشکلات کا سامنا کریں گی۔ گزشتہ دو سالوں میں افراط زر کی وجہ سے سالانہ تقریباً آٹھ لاکھ افراد بیرون ملک منتقل ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد بھی شامل تھے۔ موجودہ ٹیکس کریڈٹس کی منسوخی کے بعد، یہ تعداد نمایاں طور پر بڑھ سکتی ہے جس سے ملک میں باصلاحیت، ہنر مند اور بہترین دماغوں کی کمی واقع ہونے کا امکان ہے۔
بہترین دماغوں کی بیرون ملک منتقلی سے تعلیم اور تحقیق کے معیار میں کمی آ ئے گی۔ اس کے ساتھ ملک کے مقامی مسائل کو سائنسی اور علمی تحقیق کے ذریعے حل کرنے کی صلاحیت پر بھی اثر پڑے گا۔ اساتذہ اور محققین جو پہلے ہی خود کو نظرانداز محسوس کرتے ہیں، ان کی کارکردگی بھی متاثر ہو گی۔ محققین کو پہلے ہی محدود معاشی وسائل اورتحقیق کے لیے ضروری سامان کی برآمد پر پابندی، جیسے مسائل درپیش ہیں۔ اب ذاتی معاشی مسائل تو سونے پر سہاگہ ثابت ہوں گے۔
ان منفی نتائج کو کم کرنے کے لیے، حکومت کو تعلیمی اور تحقیقی کارکنوں کے لئے ٹیکس سبسڈی کو دوبارہ بحال کرنے پر سنجیدہ غور کرنا چاہیے۔ اگر مکمل بحالی ممکن نہیں ہے، تو شاید مرحلہ وار کمی قابل عمل متبادل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو عالمی علمی معیشت میں پھلنے پھولنے اور اپنے داخلی مسائل کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لئے، اپنے اساتذہ اور محقیقن پر سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ یہ صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ قوم کی خوشحالی اور فلاح و بہبود کی ضمانت ہیں۔