گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ آپریشن عزم استحکام پر پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیوں، سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا چاہیے اور وہ اس سلسلے میں صدر مملکت اور اسٹیک ہولڈرز کو پیغام پہنچائیں گے۔
وی نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو آپریشن کیسے کامیاب ہوگا؟ تاہم ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے جنوبی اضلاع میں دہشت گردی بڑھ چکی ہے اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے اپنے ضلع میں شام کو سفر کرنا دشوار ہے۔
علی امین گنڈا پور اندر سرکاری وزیراعلیٰ ہوتے ہیں باہر آکر پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ ہو جاتے ہیں
گورنر خیبر پختونخوا نے اسلام آباد کے مشترکہ اجلاس میں آپریشن کی حمایت اور باہر آکر مخالفت کرنے پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اندر وہ سرکاری وزیراعلیٰ ہوتے ہیں باہر آکر پی ٹی آئی کے وزیراعلیٰ ہو جاتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سیکریٹری اطلاعات نے کہا کہ شدت پسندوں کو واپس صوبے میں بسانے میں پی ٹی آئی قصور وار ہے جس سے امن و امان کی صورتحال خراب ہوئی۔
اے این پی کے بھی آپریشن عزم استحکام پر کافی تحفظات تھے
ان کا کہنا تھا کہ وہ اے این پی کے باچا خان مرکز گئے تھے۔ اے این پی کے بھی آپریشن عزم استحکام پر کافی تحفظات تھے اور ان کی بات ایک حد تک ٹھیک بھی تھی کہ اگر سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیں گے تو آپریشن کیسے کامیاب ہوگا؟ صدر صاحب کو اور اسٹیک ہولڈر کو بتاؤں گا کہ تمام سیاسی جماعتوں، شراکت داروں، صوبائی اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینا ہوگا۔
گورنر خیبر پختونخوا نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر (علی امین گنڈا پور) تو فیصلے کا حصہ تھے۔ چیف منسٹر صاحب وہاں موجود تھے۔ نہ انہوں نے واک آوٹ کیا نہ یہ کہا کہ میری پارٹی کو اعتماد میں لیں یا اسمبلی یا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں۔ ادھر سب کو کچھ سائن کرکے آجاتے ہیں بعد میں مکر جاتے ہیں، یہ چوری اور سینہ زوری ہے۔
مزید پڑھیں
فوجی آپریشن پر ان کا کہنا تھا کہ 2009 میں بھی بات چیت میں ناکامی کے بعد آپریشن ہوا۔ فوج اور پولیس کے جوانوں حتیٰ کے صوبے میں عوام اور بچوں نے بھی قربانی دی۔ اس کے بعد گزشتہ حکومت نے کہا کہ ہم نے ان کو واپس بسانا ہے یہ پرامن ہو گئے ہیں اور یہ ہتھیار نہیں اٹھائیں گے اور انہیں اس صوبے میں آباد کردیا۔ آج وہ لوگ ہتھیار اٹھا کر کھڑے ہیں ہم کس کا گریبان پکڑیں اب؟
اب پی ٹی آئی والے کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو آن بورڈ لیں کیا انہوں نے اس وقت پارلیمنٹ کو آن بورڈ لیا تھا جب لا کر یہاں آباد کر رہے تھے؟ کیا کے پی اسمبلی کو آن بورڈ لیا تھا؟ اس وقت کہہ رہے تھے ہم کسی کو نہیں مانتے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں اب بھی کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ آن بورٖڈ ہو، اسٹیک ہولڈر آن بورڈ ہوں سیاسی جماعتیں آن بورڈ ہوں تاکہ اس کو عوامی اسپورٹ مل سکے۔
وزیراعلیٰ کے ضلع میں شام کو قافلوں کی شکل میں سفر کیا جاتا ہے
فیصل کریم کنڈٖی کے مطابق اس وقت صوبے کے جنوبی ڈویژنز میں حالات خراب ہیں خود وزیراعلیٰ کے ضلع میں شام کو قافلوں کی شکل میں سفر کیا جاتا ہے اس میں زمہ دار ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیساں تھیں۔ جب امن کے لیے پالیسیاں بنیں، امن آگیا تو پھر آپ نے انہی شدت پسندوں کو دوبارہ آباد کیا۔ آج دیکھیں کیا ہو رہا ہے۔
اس سوال پر کہ شدت پسندوں کی دوبارہ آباد کاری کا فیصلہ کیا صرف پی ٹی آئی کا تھا یا کچھ اور قوتوں کا ان کا کہنا تھا کہ یہ پی ٹی آئی کا فیصلہ تھا ان کے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ تھے اور سب کچھ کرکے ان کیمرا بریفنگ دی گئی۔
لوڈ شیڈنگ: وفاق صوبائی ڈیسکوز کے پی حکومت کے حوالے کر دے
کے پی کے میں لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ لوگوں کی مشکلات حقیقی ہیں مگر لوڈشیڈنگ سندھ اور بلوچستان میں بھی ہے اور پنجاب میں بھی ہے۔ کے پی کے میں لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے ان کی واپڈا کے ساتھ میٹنگ ہوئی ہے انہیں ریکوری کے مسائل ہیں۔ اس معاملے پر صوبائی حکومت، عوام اور واپڈا کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
اگر آپ تیل سے بجلی پیدا کر رہے ہیں تو خرچ ادا کرنا ہوتا ہے۔ اگر ایک لاکھ کا تیل لے کر بجلی پیدا کرتے ہیں اور ریکوری بیس 30 ہزار ہے تو پھر واپڈا کب تک جیب سے پیسے دے سکتا ہے۔ ڈائیلاگ کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ معاملہ دھمکیوں سے حل نہیں ہوتا۔
گرڈ اسٹیشن پر حملہ منی 9 مئی کے مترادف ہے
ان کا کہنا تھا کہ گرڈ اسٹیشن پر حملہ منی 9 مئی کے مترادف ہے۔ اس طرح سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں گے تو نقصان صوبے کے عوام کا ہوگا۔ وفاق کو ان کا مشورہ ہوگا کہ صوبے میں 3 ڈیسکوز ہیں۔ تینوں صوبائی حکومت کو دے دیں اور بولیں آج کے بعد آپ سوئچ آن بھی کریں آف بھی کریں۔ فائدہ بھی آپ کا نقصان بھی آپ کا ہے۔ لین دین کا معاملہ ہے تو وفاق نے صوبے کے پیسے دینے ہیں وہ حساب کرکے باقی صوبے کو دے دیں۔ اس کے بعد صوبے کو مکمل ذمہ داری دے دیں۔
ابھی تک وہ تربیلا کی بجلی کا سوئچ آف نہیں کرسکے
صوبے کے وزیراعلیٰ کے ساتھ اختلافات پر ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو اپنے دائرے میں کام کرنا چاہیے۔ اگر وہ گورنر ہاؤس کی سہولیات بند کرنے کی بات کریں گے تو وہ کرکے دکھا دیں کیونکہ میں وفاق کا نمائندہ ہوں پھر میں بھی کہوں گا آپ پشاور سے باہر نکل کر دکھائیں۔ اس لیے ان کو اپنا معیار بلند کرنا چاہیے۔ یہ سب باتیں ہیں کر کچھ نہیں سکتے۔ ابھی تک وہ تربیلا کی بجلی کا سوئچ آف نہیں کرسکے۔
علی امین گنڈا پور کے ساتھ دور کی رشتہ داری ہے
علی امین گنڈا پور کے ساتھ شکار کی تصویر پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ 2013 کی تصویر ہے ان کی وزیراعلی کے ساتھ دور کی رشتہ داری ہے۔ پچھلے دنوں انہوں نے کہا ہے کہ رشتہ داری نہیں ہونی چاہیے میں نے کہا اچھی بات ہے ایسے شخص کو رشتہ دار کوئی کیا مانے گا جو روزانہ برائی کے مقدمات میں عدالتوں میں کھڑا ہو۔ اس کو تو کوئی بھائی نہیں مانے گا۔ شکار کی پرانی تصویر ہے جب اکٹھے شکار کھیلا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انہیں سیاستدان نہیں سمجھتے۔ پہلے وہ پیپلز پارٹی کے ایک ونگ کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔
سوات واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیاسی تقسیم کا اثر عوام پر بھی پڑتا ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے میثاق جمہوریت کے بعد اب پی ٹی آئی آ گئی جو کسی کو نہیں مانتی۔
عمران خان کی سزا جزا کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے
عمران خان کی رہائی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے اپنے اعمال ہیں ان کی سزا جزا کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، این آر او نہیں مل سکتا۔
گورنر راج کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو فوبیا ہو گیا ہے مگر سیاسی جماعتیں گورنر راج نہیں لگاتیں۔
میڈیا اور سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف مہم چلاتی رہتی ہیں مگر پارٹی قائم ہے
اس سوال پر کہ صوبے میں پیپلز پارٹی ختم ہو گئی ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کسی صوبے سے ختم ہو گئی ہیں۔ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے دور میں پارٹی بہت کم تعداد میں اسمبلی میں تھی مگر پھر حکومت بنائی پھر دوسری بار تعداد کم ہوئی پھر حکومت بنائی، اس لیے پارٹیوں میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اور سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی کے خلاف مہم چلاتی رہتی ہیں مگر پارٹی قائم ہے۔
میں سمجھتا ہوں 2 خیبرپختونخوا ہیں ایک سوشل میڈیا پر اور ایک حقیقی
پی ٹی آئی کی صوبے میں مسلسل تیسری بار کامیابی اور حکومت سازی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ اس پر بہت تفصیلی گفتگو درکار ہے۔ میں سمجھتا ہوں 2 خیبرپختونخوا ہیں ایک سوشل میڈیا پر ہے اور ایک حقیقی ہے۔ اس وقت تعلیم کا یہ حال ہے کہ 34 میں سے 26 یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز نہیں ہیں۔ ان سب یونیورسٹیوں کے لیے بجٹ میں صرف 3 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ آپ دوسرے صوبوں سے اس کا تقابل کریں تو اندازا ہوگا۔ سندھ میں اس سال 25 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
یوتھ کے نام پر بننے والی حکومت 15 برس سے فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں کراسکی
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں 15 سال سے فرسٹ کلاس کرکٹ نہیں ہوئی حالانکہ پی ٹی آئی یوتھ کے نام پر یہاں حکومت کرتی ہے۔ ارباب نیاز اسٹیڈیم پشاور تاریخی ہے مگر اس پر بیرون ملک سے ٹویٹ ہوئی ہے کہ یہ جنگل نہیں یہ کرکٹ گراونٖڈ ہے۔ پھر میں نے وہاں کا دورہ کیا تو وہاں گھاس اگی ہوئی تھی۔ ترقی کا یہ حال ہے کہ سابق فاٹا کے ساتھ کتنے سالوں سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے اگر پھر بھی ووٹ مل رہا ہے تو اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔
کے پی کے میں الیکشن حلال اور باقی جگہ حرام؟
اس سوال پر کہ کیا کے پی کے میں دھاندلی ہوئی ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد پورے ملک میں دھاندلی کی بات کرتی ہے مگر کے پی میں جیسے الیکشن حلال اور باقی جگہ حرام ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے نئے ممکنہ اتحادی مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ ان کے حق میں ڈاکا ڈالا گیا تو کہاں پر ڈالا گیا یہیں پر ہوا ناں؟ مولانا فضل الرحمن میرے لیے باعث احترام ہیں میری تجویز ہے کہ معاہدے کا پہلا نکتہ یہ ہونا چاہیے کہ مال غنیمت مولانا کو واپس کیا جائے اور پہلی جے آئی ٹی اسی صوبے میں بنائی جائے تاکہ باقی صوبوں کو بھی ترغیب ملے۔
موجودہ پی ٹی آئی حکومت بلین ٹری سونامی کا نام بھی نہیں لیتی
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ موجودہ پی ٹی آئی حکومت بلین ٹری سونامی کا نام بھی نہیں لیتی بلکہ درخت کاٹے جا رہے ہیں۔ غیر قانونی اسمگلنگ ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نےآج تک سیلاب متاثرین کو امداد تک نہیں پہنچائی۔
مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت کے ساتھ اختلافات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اتحادی جماعتوں میں اس طرح بات چیت ہوتی رہتی ہے۔ بجٹ پر اختلافات ہوئے تو بلاول بھٹو کی وزیراعظم صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی اور مسائل حل ہو گئے۔
چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اپنا وقت پورا کرے
اس سوال پر کہ شہباز حکومت کتنا عرصہ چلے گی ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اپنا وقت پورا کرے۔ میرے خیال میں اتحادی حکومت میں اچھے رابطے چل رہے ہیں اور وہ پرامید ہیں کہ یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔