100 سالہ امریکی خاتون مریم ٹوڈ اپنی عمر کے بہت سے لوگوں سے زیادہ گھنٹے کام کرتی ہیں وہ روزانہ 8 گھنٹے کے حساب سے ہفتے میں 6 دن اپنے فرنیچر اسٹور پر موجود رہتی ہیں اور اس طرح ہفتے میں ان کے ورکنگ آورز تقریباً 50 گھنٹے ہوجاتے ہیں۔
مزید پڑھیں
مریم ٹوڈ اپنے اسٹور کے آفس میں کام کا سارا ریکارڈ مینٹین کرتی ہیں، گاہکوں کی فرنیچر پسند کرنے میں مدد دیتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ ان کے اسٹور پر تمام کام بخوبی انجام پائیں۔
ان کا یہ بزنس ان کے والدین نے سنہ 1929 میں نیو جرسی قائم کیا تھا اور فی الحال تو ان کا ریٹائر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ اور ایک اور خاص بات یہ کہ وہ اپنی کار بھی خود ہی ڈرائیو کرتی ہیں۔
مریم اب ایک پردادی (گریٹ گرینڈ مدر) نہیں بلکہ لکڑ دادی (گریٹ گریٹ گرینڈ مدر) بھی بن چکی ہیں کیوں کہ ان کے پوتے کے بھی پوتے پیدا ہوچکے ہیں۔
وہ اپنے کام سے بیحد لطف اندوز ہوتی ہیں اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ مجھے یہ کہتے شرم آتی ہے کہ میں کام کرتی ہوں (ان کا مؤقف یہ ہے کہ جس عمل کو انجوائے کیا جائے اسے کام کیوں کہیں)۔
انہوں نے کہاکہ یہ سب کے لیے نہیں تو لیکن ان کے لیے ایک ایسا کام ہے جسے وہ بہت انجوائے کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی والدہ بھی ایسی ہی تھیں۔
مریم کی والدہ کا انتقال ان کے فرینچر اسٹور کے اسی دفتر میں ہوا تھا جس میں اب مریم بیٹھتی ہیں۔ ان کی والدہ اپنی میز کرسی پر بیٹھی اپنا معمول کا کام کر رہی تھیں کہ ان کا دم نکل گیا۔ اس وقت ان کی عمر 80 برس سے زیادہ تھی۔
مریم نے کہا کہ اگر میری زندگی کے لیے بھی خدا کی مرضی یہی ہے تو پھر میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوجائے (یعنی میں بھی کام کرتے ہوئے مرجاؤں)۔
11 جون 1924 کو پیدا ہونے والی مریم ٹوڈ کا کہنا ہے کہ ان کا ریٹائر ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وہ اپنے بیٹے اور پوتے کے ساتھ اسٹور چلاتی ہے۔ انہوں نے فرنیچر اسٹور پر سنہ 1940 کی دہائی میں کام شروع کیا تھا پھر جب ان کی شادی ہوگئی تو انہوں نے امور خانہ داری کی وجہ سے کچھ سالوں کا وقفہ لیا اور پھر سنہ 1975 سے دوبارہ کام سنبھال لیا۔ مریم کی شادی 51 برس قبل ہوئی تھی اور ان کے شوہر کا انتقال سنہ1995 میں ہوا تھا۔
مریم نے کہا کہ میرے شوہر کو ان کی صحت کی وجہ سے ریٹائر ہونا پڑا تاہم وہ بھی اپنے کام کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ انہوں ںے مزید کہا کہ میں کبھی خوش نہ ہوتی اگر مجھے پورا وقت رہنا پڑتا۔
مریم ٹوڈ اب بھی کار چلاتی ہیں، تمام گروسری کی خریداری خود کرتی ہیں اور کھانا بھی خود ہی پکاتی ہیں۔ وہ پچھلے 2 سالوں سے اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
بیماریوں سے دور
صد سالہ خاتون کا کہنا ہے کہ انہیں اچھی صحت نصیب ہوئی ہے اور انہیں کینسر یا دل کی بیماری جیسی بڑی بیماریوں سے نمٹنا نہیں پڑا۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ آنکھوں کے ماہر کے پاس جانے کے علاوہ انہیں 3 سالوں میں کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑا۔
مریم اور ان کے اہل خانہ نے ان عادات پر روشنی ڈالی جنہوں نے انہیں لمبی زندگی گزارنے میں مدد کی ہے۔
وہ صحت مند غذا کھاتی ہیں
مریم کی پوتی کرسٹی ٹوڈ ہافمین نے ان کی لمبی عمر کا سہرا ان کی بھرپور غذا کے سر باندھا۔
جب مریم اپنی 90 کی دہائی کے اوائل میں تھیں تو ایک ڈاکٹر نے ان کی طویل زندگی کا سہرا جینیات کو دیا تھا۔
لیکن کرسٹی کہتی ہیں کہ یہ درست نہیں کیوں کہ اگر آپ اپنے جسم کو منشیات، الکحل یا سگریٹ نوشی سے متاثر کرتے ہیں تو آپ اتنی لمبی زندگی نہیں جی پائیں گے، وہ بہت اچھی خوراک کھاتی ہیں۔
مریم ٹوڈ تلی ہوئی غذائیں یا فاسٹ فوڈ نہیں کھاتیں اور وہ عام طور پر الکحل سے پرہیز کرتی ہیں۔
ان کی پلیٹ ہمیشہ کثیر رنگ کی ہوتی ہے اور وہ پھل اور سبزیاں اچھی طرح کھاتی ہیں۔ انہیں ڈارک چاکلیٹ بھی پسند ہے جو دماغ اور جسم کے لیے فائدہ مند ہے۔
سارا کھانا تازہ اور گھر پر تیار ہوتا ہے
مریم ٹوڈ کو کھانا پکانا پسند ہے اور بہت سے چیزیں جو وہ پکاتی ہیں وہ ان کے باغ سے آتی ہیں جہاں وہ ٹماٹر، کالی مرچ، کھیرے، پیلا اسکواش اور توری اگاتی ہیں۔
وہ سپر مارکیٹ سے دیگر تازہ سبزیاں بھی خریدتی ہیں۔
مریم نے کہا کہ وہ کوشش کرتی ہیں کہ صحیح کھائیں، صحیح سوئیں اور صحیح طور پر زندگی گزاریں۔
مریم کا ایکٹیو لائف اسٹائل
مریم پول میں تیرنا اور صحن میں کام کرنا پسند کرتی ہیں۔ ان کی نوکری کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ سارا دن متحرک رہیں۔ وہ سیڑھیاں چڑھتی اترتی ہیں، فرنیچر اسٹور کے دفتر اور شو روم میں کام کرتی ہیں۔
وہ ایک مثبت نقطہ نظر برقرار رکھتی ہیں
مریم ٹوڈ خود کو بہت پر امید سمجھتی ہیں جو لمبی عمر سے منسلک ایک خاصیت ہے۔ لیکن انہیں نوجوانوں اور ان چیلنجوں کا بہت خیالہے اور وہ یہ سجھتی ہیں کہ زندگی اب بہت مشکل ہے۔ تاہم وہ نوجوانوں کو مشورہ دیتی ہیں کہ وہ بچت کی عادت اپنائیں۔
نہ کوئی قرضہ نہ کریڈٹ کارڈ
انہوں نے کہا کہ مجھے کریڈٹ کارڈ کا قرض پسند نہیں ہے اس لیے میرے پاس کوئی کریڈٹ کارڈ نہیں ہے۔
ان کی باتوں سے یہ بھی لگتا ہے کہ وہ لوگوں کے رویوں پر کڑھتی نہیں ہیں۔ شاید خوش قسمتی سے ان کی زندگی میں جتنے بھی لوگ آئے اور ہیں وہ انہیں کوئی دکھ نہ دیتے ہوں۔ اب یہ بات کتنی درست ہے یہ تو پتا نہیں تاہم وہ کہتی ہیں کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں انہیں ہر ایک سے بہت پیار ملا جس پر وہ ان کی شکرگزار ہیں۔