جنرل باجوہ کیا چاہتے ہیں؟

منگل 28 مارچ 2023
author image

بتول راجپوت

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

2015  میں سینئر سیا ست دان ، جاوید ہاشمی نے پی ٹی آئی چھوڑنے کے بعد پہلا انٹرو یو مجھے دیا۔ اس انٹرویو میں انہوں نے  بتایا کہ جنرل پاشا اور ان کے ساتھیوں نےعمران خان کو سپورٹ کیا اور ان کے جلسوں کو کامیاب بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سب سکر پٹ کے تحت ہو رہا ہے اور وہ اس کا حصہ نہیں رہ سکتے.

جنرل باجوہ کی صحافیوں سے ملاقاتیں اور انٹرویوز نے مجھے جاوید ہاشمی والا انٹریو یاد کر ا دیا ۔ فرق کیا ہے؟ کچھ نیا تو نہیں سنا؟ انہی پرانی خبروں کو تروڑ مروڑ کر نئے انداز میں پیش کیا جا رہا ہے؟

مزید کچھ بدلا نہیں ہے تو ہمارے سیا ست دانوں کی اسٹیبلشمنٹ سے امیدیں ۔ ن لیگ کے لئے فیض حمید زیادہ بُرے تو پی ٹی آئی کے لئے باجوہ۔ یہ دونوں اپنا اپنا سیاسی بیانہ اور وضاحتیں ان دونوں جنرلز کی نسبت سے بنانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہی۔ جب نواز شریف انقلابی تھے تو لگتا تھا کہ اب اسٹیبلشمنٹ کے بغیر دھاڑیں گے اور دھاڑتے رہیں گے۔ لیکن مریم نواز جنرل باجوہ پر اب جنرل فیض حمید سے زیادہ تنقید نہیں کرتیں ۔

بے نظیر قتل کیس ہو یا  دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں، ہماری سیا سی جماعتیں کوئی واضع پالیسیاں نہیں دے سکیں۔ محض اقتدار کی مضبوطی کے لیے فیصلے ہوئے ۔اپنی ساکھ مضبوط نہ ہو تو پھر کسی سکرپٹ کے تحت استعمال ہونے میں مشکل نہیں ہوتی لیکن جب سکرپٹ مکمل ہو جائے اور رول بھی تو پھر کسی صحافی یا سیاست دان کا کردار بھی باقی  نہیں رہتا؟ نواز شریف کے لیے جنرل جیلانی اور عمران خان کے لئے جنرل باجوہ سیاست کے ہار ثابت ہوئے, ویسے سیاست دان اب تک ہار ہی رہے ہیں۔

جو باتیں جاوید ہاشمی نے کی تھی ان کو تب سنجیدہ لیا جاتا اور جنرل مرزا اسلم بیگ کی کتاب ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ اگر وقت پر ہی سمجھ لی جاتیں تو آج ہم اپنے ادارے طاقتور بنا چکے ہوتے۔  ہم سب پر اعتماد ہو کر ایک بار یہ اعلان کرتے کہ ملک پہ حملہ آور ہونے والوں کو بار بار مذاکرات کی میز پہ لانا ہے یہ نہیں ؟ اور آج ہم بریگیڈیئر مصطفی برکی کی شہادت پہ تکلیف میں نہ ہوتے

اب بات کرتے ہیں جنرل باجوہ کے غیر ضروری انٹرویوز کی جو کہ انٹرویو سے  زیادہ پریس کانفرنس لگتے ہیں۔ ہمارے کچھ معتبر صحافی یہ کہتے ہیں کہ وہ جنرل باجوہ سے بہت قریب ہیں۔ ان میں سے کوئی جنرل صاحب کو یہ کیوں نہیں کہتا کہ اب تو وہ ریٹائرڈ ہیں اپنی پوزیشن کلیئر کریں ۔

اپنے دور میں ملاقاتیں کرنا اور صحافیوں کے ذریعے سیاسی پیغامات بھجوانا جنرل باجوہ کی ترجیحات کو واضع کرتا ہے۔ کشمیر ہماری شہ رگ ہے لیکن جنرل باجوہ شاید اپنے دور میں یہ بھول گئےتھے.

اب وہ اپنی پوزیشن کلیئر کرنا چاہتے ہیں ۔اگر جنرل صاحب ہمت کر کے کسی پروفیشنل صحافی کو انٹرویو دیں یا لکھیں تو شاید پوزیشن کلیر ہو۔ لیکن حقائق کو چٹ چیٹ کہہ دینا اور لمبی نشستوں کے بعد بری الزماں ہونا ٹھیک نہیں.

نئے چیف جتنا چاہیں اے پولیٹیکل رہیں لیکن سیاست تب تک صاف نہیں ہو گی جب تک کم سے کم اپنے منہ سے ماننے والوں کو سزا نہ مل جائے.

لیکن سزا کون دے گا؟ جوڈیشل کمپلیکس میں بیٹھنے والے؟یا وہ بابائے رحمت جنہوں نے مختلف صحافیوں کو مختلف انٹرویوز دیے؟

جنرل باجوہ کی سب سے بڑی سزا تو یہی ہے کہ ان کو توسیع دینے والے ان کے کورٹ مارشل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب ساری جماعتیں توسیع سے توبہ تو کرتی ہیں لیکن آس وہیں سے لگاتی ہیں۔ اظہر مشوانی اور حسان نیازی کے خلاف جو ہو رہا ہے وہ سیاسی جبر کے علاوہ کچھ نہیں۔

جہاں اسٹیبلشمنٹ کا جھکاؤ ہے وہیں حکومت سر  جھکائے ہوئے ہے ۔ اس صورت حال میں جنرل باجوہ چاہ کر بھی اپنی پوزیشن کلیئر نہیں کر سکیں گے۔ شاید جنرل صاحب کو دیکھ بھال کر ملاقاتیں کرنی چاہیے تھیں؟ اب جنرل باجوہ جو چاہتے ہیں وہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اب کان اور آنکھیں زیادہ کھلی ہیں.

 

 

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بتول راجپوت صحافی ہیں اور سچ ٹی وی پر "دی ٹاک شو" کے نام سے پروگرام کرتی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp