ناصر کاظمی کا لاہور

جمعرات 27 جون 2024
author image

محمود الحسن

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

    ممتاز ادیب اور نقاد شمس الرحمٰن فاروقی اپنے مضمون’کمال کے شہر میں تین باکمال‘ میں لکھتے ہیں:

 ’ جیسے عاشق لاہور کو نصیب ہوئے ( اور میں تو کہتا ہوں کہ اب بھی ہیں) ویسے کم از کم ادب کے میدان میں دلی کو بھی نصیب نہ ہوئے۔کچھ تو بات یہاں ہو گی جو ’کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جاایں جاست‘ والا رمز رکھتی ہو گی؟‘

   لاہور کے عشاق میں سے ایک عاشق ناصر کاظمی بھی تھے جیسا کہ معروف دانش ور وجاہت مسعود نے اپنے ایک کالم میں لکھا:

 ’لاہور تو سولہویں صدی کی نورجہاں سے لے کر بیسویں صدی کے ناصرکاظمی تک اپنے عشاق کے ضمن میں ہمیشہ خوش نصیب رہا ہے ۔‘

  یہ لکھتے ہوئے غالباً ان کے ذہن میں نور جہاں کا یہ شعر ہوگا:

لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم

جاں دادہ ایم و جنتِ دیگر خریدہ ایم

(لاہور کو ہم نے جان کے برابر قیمت پر حاصل کیا ہے/ ہم نے جان قربان کرکے نئی جنت خرید لی ہے۔)

لاہور کی اہمیت بلھے شاہ کے کلام سے بھی  ظاہر ہوتی ہے:

عرش منور بانگاں ملیاں ، سنیاں تخت لہور

    جدید اردو شاعری میں لاہور کی بات ہو تو  ناصر کاظمی کے اس شعر کا حوالہ ضرور آتا ہے:

   شہرِ لاہور تری رونقیں دائم آباد

تیری گلیوں کی ہوا کھینچ کے لائی مجھ کو

 اس شعر کے پہلے مصرعے سے دارا شکوہ کے اس مصرعے کی طرف دھیان جاتا ہے:

بود آباد دائم شہرِ لاہور

   ناصر کا شعر  تقسیم کے بعد لاہور میں آباد ہونے کی طرف اشارہ کر رہا ہے جہاں انہیں تادم آخر رہنا تھا۔ ناصر کا لاہور سے رشتہ ان دنوں استوار ہوا جب انہوں نے  اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں داخلہ لیا۔

‘لاہور کی خبریں سنا کرتے تھے کہ یہ بڑا شہر ہے ۔پڑھنے کا شوق بھی تھا تو یہاں پڑھنے کے لیے آگیا۔’

اس زمانے میں، اور پاکستان میں بیتے24 برسوں میں بنیادی فرق یہ رہا کہ پہلے ناصر ایک متمول گھرانے کے چشم و چراغ تھے لیکن نئے وطن میں زندگی دشوار رہی۔

 پاکستان بننے کے بعد حفیظ ہوشیار پوری ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے لاہور آئے تو ناصر نے دو تین دن ان سے ملنے سے گریز کیا جس کا سبب کچھ یوں بیان کیا:

’ایک تو اس کی نئی مصروفیات کا خیال، دوسرے میں بھی ان دنوں پریشان سا تھا۔ ماں باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا اور میں پراگندہ روزی پراگندہ دل لاہور کی گلیوں کی خاک چھانتا پھرتا تھا۔ سوچا اس برے حال میں حفیظ سے کیا ملوں! اس حفیظ کو جس نے مجھے کبھی بڑے آسودہ حال میں دیکھا تھا … تقسیم ملک سے پہلے جب میں اسلامیہ کالج میں بی اے میں پڑھ رہا تھا تو ان دنوں ہیلی ہوسٹل کے کمرہ نمبر چار میں رہتا تھا۔ میرا کمرہ دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔‘

  ایک طرف تو طالب علم کی حیثیت سے کمرے کی یہ شان اور خرمی کے دن اور تقسیم کے بعد یہ حال:

بہاریں لے کے  آئے تھے جہاں تم

وہ گھر سنسان جنگل ہو گئے ہیں

یہاں تک بڑھ گئے آلامِ ہستی

کہ دل کے حوصلے شل ہوگئے ہیں

کہاں  تک  تاب لائے ناتواں دل

کہ صدمے اب مسلسل ہوگئے ہیں

 ناصر کاظمی کے بیٹے اور معروف شاعر باصر کاظمی نے ایک ملاقات میں بتایا کہ اس  شعر میں

 ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر

 اداسی بال کھولے سو رہی ہے

 جن دیواروں کا ذکر  ہے وہ پرانی انارکلی کے گھر کی ہیں۔

اسی طرح ناصر کی ڈائری سے معلوم ہوتا ہے:

’’ آج صرف ٹھنڈے پانی کا ناشتہ کیا ‘‘

’  یتیمی ، غریب الوطنی ، بےزری ،دربدری ‘

اس گھر سے ناصر کی بڑی تلخ یادیں وابستہ تھیں:

 ’ مارچ 1957 کو پرانی انارکلی کے زنداں سے رہائی ہوئی۔ اس گھر میں ہم نے اس قدر تکلیفیں اٹھائی ہیں کہ ان کے تصور سے دل کانپتا ہے۔ ‘

اس مکان کے بارے میں ناصر کے خیالات منظوم صورت میں یوں رقم ہوئے:

چرچ روڈ کے پیچھے

تھوڑی دُور تھانے سے

اِک گلی ہے اندھیاری

اُس گلی کے کونے پر

کُہنہ لال اینٹوں کا

گھر ہے اِک پرانا سا

میرا گھر۔ پرانی انارکلی۔ 3 بھگوان سٹریٹ۔ لاہور

 اس گھر میں ناصر کو حوادث کے سیلاب کا سامنا ہی نہیں رہا ایک حقیقی سیلاب بھی دہلیز تک آن پہنچا۔

 دشت  سے  چل کے تا نگر پہنچا

اب کے سیلاب اپنے گھر پہنچا

    ناصر کاظمی کے لاہور میں بیتے دنوں کے احوال اور ان کی شاعری میں اس شہر کا حوالہ، اس پر آگے چل کر بات کرتے ہیں. ابھی کچھ ذکر تقسیم سے پہلے کے اس زمانے کا جسے ناصر کی ادبی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں مختلف شخصیات سے ان  کے روابط میں اختر شیرانی سے تعلق بڑا اہم ہے دوسرےایک مشاعرہ جس میں انہیں بہت سراہا گیا۔

اختر شیرانی کے کلام کی عام قارئین میں مقبولیت اپنی جگہ لیکن یہ اس زمانے میں سخن وروں کو بھی متاثر کر رہی تھی جن میں ن م راشد اور فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔

 اسلامیہ کالج اور عرب ہوٹل کے نزدیک فلیمنگ روڈ پر اختر کا گھر تھا جہاں شاعروں ادیبوں کا پھڑ جمتا۔ اس کے قریب ہی ریلوے روڈ پر مولوی ممتاز علی کا ادارہ دارالاشاعت پنجاب قائم تھا جہاں اختر شیرانی کا آنا رہتا تھا۔ ناصر کاظمی نے اپنی ڈائری میں لاہور میں احمد ندیم قاسمی سے اپنی ملاقات کا ذکر کیا تو ساتھ میں اختر شیرانی کا حوالہ دیا اور بتایا کہ وہ دونوں اختر شیرانی کے  مداح تھے۔ ناصر ان دنوں اسلامیہ کالج کےریواز ہوسٹل میں رہتے تھے۔

   اختر سے ذاتی شناسائی سے پہلے ناصر ان کی شاعری سے اچھی طرح واقف تھے۔ تیرہ برس کی عمر میں جب وہ ’پھول سی لڑکی‘ پر فریفتہ ہوئے تو ان کے بقول ’ ان دنوں میں ننھی منھی نظمیں کہتا تھا اور اختر شیرانی مرحوم کے شعر بہت چاؤ سے پڑھتا تھا ۔‘

    اختر شیرانی کا ذکر ہے تو یہ بتلا دیں کہ لاہور سے انہیں بھی بڑی محبت تھی۔ شمس الرحمٰن فاروقی کے جس مضمون کے حوالے سے ہم نے آغاز کیا تھا اس میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے:

’مجاز کے لیے لکھنؤ شہرِ نگاراں تھا اور عرفان صدّیقی نے دلّی کی ’جلا وطنی‘ کے زمانے میں کہا: ’میرے بغیرلکھنؤ دشت غزال کے بغیر‘، مگر مجاز اور عرفان تک آتے آتے زمانہ کہیں کا کہیں پہنچ گیا تھا۔ اور کیا لکھنؤ کے لیے مجاز ویسے ہی تھے جیسے اختر شیرانی کے لیے لاہور، یا کرشن چندر کے لیے لاہور؟‘

 نامور  نقاد ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے  ڈان اخبار میں اپنے مضمونLahore  in Urdu poetry میں اختر شیرانی کے یہ شعر نقل کیے:

کب تلک رونق شام اودھ اے ماہ رواں

شام لاہور کو بھی صبح بنا دے آ کر

گومتی دیکھ چکی جلوۂ عارض کی بہار

سطح راوی کو بھی آئینہ بنا دے آ کر

 اختر شیرانی اور ناصر کاظمی میں یہ قدر مشترک بھی ہے  کہ دونوں نے لاہور میں عام آدمی سے ربط ضبط رکھا۔ ان سے دوستی کی۔ ریلوے روڈ پر عرب ہوٹل کے پاس پان فروش رمضانی کی اختر شیرانی سے دوستی تھی جس کے بارے میں ان کا شعر بھی ہے :

رنگ جمتا نہیں گو عشق کا ان پر اختر

پھر بھی رمضانی انہیں پان دیے  جاتے ہیں !

  اختر شیرانی کی طرح ناصر کی بھی پنواڑیوں سے دوستی تھی۔ پنواڑیوں کے حوالے سے مجید امجد کی  نظم’ پنواڑی ’بھی ذہن میں آتی ہے۔ناصر کا لاہور کے تانگے والوں سے بھی یارانہ تھا، ان میں سے ایک سے دوستی یوں ہوئی کہ تیز بارش میں وہ ناصر کو سواری کی حیثیت سے قبول کرنے سے انکاری تھا۔ ناصر نے  اپنا تعارف  کروایا تو اس نے تصدیق کے لیے شعر سنانے کا تقاضا کردیا۔

ناصر گویا ہوئے:

  واقعہ یہ ہے کہ بدنام ہوئے

بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا

اس پر باذوق سامع کا ردعمل ناصر نے یوں بیان کیا :

’تو وہ بڈھا باہر بارش میں بھیگتا بھیگتا تانگے سے اچھل پڑا۔ کہنے لگا، ابے لونڈے تیرا یہ شعر ہے۔  ابے بیٹھ میں تجھے ساری عمر مفت لے جاؤں گا اور تادم آخر وہ مجھے لے جاتا رہا ۔‘

اب کچھ بات تقسیم سے پہلے کے  مشاعرے کی ہو جائے۔

 1944 میں  لاہور ریڈیو اسٹیشن پر  کل ہند مشاعرہ ہوا  جس میں یگانہ بھی شریک ہوئے۔ یگانہ غالب ہی کے منکر تھے تو کسی اور کے کیا حامی ہوں گے لیکن اس مشاعرے میں ناصر کے کلام نے ان کی توجہ حاصل کی۔

حمید نسیم نے ‘ ناممکن کی جستجو ‘ میں لکھا:

’مشاعرہ کا آغاز ناصر کاظمی سے ہوا۔ اس کی غزل یہ تھی:

 کچھ اپنا ہوش تھا نہ کسی کا خیال تھا

یوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی

دل نےخیالِ ترک محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

ناصر کی غزل کے ہر شعر پر یگانہ صاحب کے جسم کو جھٹکا سا لگتا محسوس ہوا۔ مگر زبان سے ایک لفظ نہیں کہا…ہر شعر پر یاس صاحب یوں اضطراراً پیچھے ہٹتے تھے جیسے بجلی کی رو چھو گئی ہو۔ باقی شعرا نے بے ساختہ داد دی تھی اور حقیقت یہ تھی کہ ناصر شرکائے مشاعرہ کی داد کا محتاج نہیں تھا۔ روحِ عصر نے اس نئے شاعر کے کلام پر اس رات اسے داد دی تھی۔ ناصر راتوں رات مانا ہوا شاعر بن گیا۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مشاعرہ ناصر کاظمی نے لوٹ لیا تھا اور یہ اس کے تابناک شعری سفر کا نہایت روشن آغاز تھا۔‘

  تقسیم کے ہنگام ناصر نے انبالے سے لاہور ہجرت کی۔ اس تجربے کا بیان ان شعروں میں سمٹ آیا ہے:

  انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے

میں ہوں اسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی

اے ساکنانِ خطۂ لاہور دیکھنا

لایا ہوں اس خرابے سے میں لعلِ معدنی

 ڈاکٹر آفتاب احمد نے لاہور سے ناصر کا تعلق یوں بیان کیا ہے :

 ’ ہجرت اور اپنے وطن کے مستقل چھٹ جانے کا ایسا چرکہ اس کے دل پر لگا تھا کہ لاہور سے مانوسیت میں بھی اجنبیت کا پہلو برقرار رہا اور اس کے دل کی کلی یہاں کبھی نہ کھلی۔

ترے شہر طرب کی رونقوں میں

طبیعت اور بھی گھبرا رہی ہے

مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی

وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا ‘

  ناصر کاظمی کے شہر سے تعلق پر نقادوں میں غالباً سب سے پہلے شمس الرحمٰن فاروقی نے توجہ کی ۔ان کا کہنا ہے کہ بودلئیر کی طرح ناصر کاظمی کا تصور بھی شہر کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کے بقول ’ دونوں ہی نے اپنے ذاتی کرب کے اظہار کے لیے شہر کو استعارہ کیا ہے۔‘

اس موقعے پر بودلئیر کے اس  قول کی طرف ذہن منتقل ہو رہا ہے:

‘جب کہ ایک صاحبِ نظر انسان گھومنا پھرنا جانتا ہو ایک بڑے شہر میں کیا کیا عجیب باتیں نہیں دیکھتا۔’

 ناصر کی شہر نوردی  بودلئیر کے فرمودے کی روشنی میں دیکھنے سے شہر سے ان کے رشتے کی نئی پرتیں کھلتی ہیں۔ان  کے لاہور میں گزرے شب روز کے احوال سے جانا جاسکتا ہے کہ انہوں نے شہر جاگتی  آنکھوں سے دیکھا۔ زمین کا گز بن کر۔ کبھی اکیلے تو کبھی دوستوں کی معیت میں، سو ان  کا معاملہ شہزاد احمد کے اس شعر سے الٹ ہے:

شہزاد بڑی چیز ہیں لاہور کے کوچے

اور تو نے تو گھر بیٹھ کے ہی عمر گنوا دی

معروف نقاد شمیم حنفی بھی  ناصر کی شاعری  میں پورا شہر آباد دیکھتے ہیں:

 ’ناصر کے یہاں جو اشیا سے دلچسپی ملتی ہے، concreteچیزوں سے ربط ہے، رنگوں سے ، موسموں سے ، درختوں سے، پرندوں سے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض غزل کی شاعری نہیں ہے بلکہ ایک پورا شہر آباد ہے اس شاعری میں ۔ ‘

ناصر کے تصور شہر کو جاننے کے واسطے صلاح الدین محمود کا مضمون  ’ اجنبی شہر کی تلاش‘ خاصے کی چیز ہے۔ ناصر جو اس شہر سے شناسا ہو چکے ہیں وہ تازہ واردان شہر کو اجنبی ہونے کی منفعت باور کراتے ہیں:

“آپ اس شہر میں اجنبی ہی رہیں تو بہتر ہے ورنہ کہیں یہ دماغ کی مہک ضائع نہ ہو جائے۔”

  ناصر کے ہاں  لاہور میں رونما ہونے والے بعض اہم واقعات کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔مثلاً جب وہ یہ لکھتے ہیں :

   بازار بند راستے سنسان بے چراغ

وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی

تو  یہ محض  داخلی کیفیت کا بیان  محسوس نہیں ہوتا بلکہ باہر کی دنیا کی بات لگتی ہے جو ظاہری بات ہے لاہور کی دنیا ہے۔اس  کی مزید تصدیق اس مصرعے سے  ہوتی ہے:

 گلیوں میں اب تو شام سے پھرتے ہیں پہرے دار

  اس شاعری کا پس منظر یہ ہے کہ لاہور میں 1953 میں مارشل لا لگا تھا جس  سے شہر کی فضا میں جو خوف و ہراس پیدا ہوا اس سےرات کا بے نوا مسافر بھی متاثر ہوا۔ آزاد پنچھی کو  گھر میں مقید ہونا پڑا ۔اس زمانے کی سہمی فضا کا احوال ناصر کی ڈائری میں بیان ہوا ہے:

“کافی ہاؤس کے باہر گولی چلی “

”  گھر سے نکلنا دشوار ہوا۔ہر موڑ پر فوجیوں کے مورچے۔ آگ، قتل کی واردات”

“چھ بجے شام کرفیو لگ گیا”

ایک جگہ ڈائری میں یہ فقرہ بھی ہے:

” لاہور میر کی دلی بنا ہوا ہے”

  ناصر کا مشہور شعر ہے:

 میں ہوں رات کا ایک بجا ہے

خالی رستہ بول رہا ہے

یہ شعر پڑھنے کے بعد  انتظار حسین کا یہ بیان دیکھیے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ناصرکے ہاں رات کا تصور کس قدر حقیقی ہے:

 ’’ہم ہیں ۔ رات کا ایک بجا ہے۔خالی رستہ بول رہا ہے۔ریگل چوک پر پہنچ کر میں ٹھٹھکا۔ یہاں فٹ پاتھ سے اتر کر دو تانگے کھڑے تھے،چپ چاپ۔تانگے والے بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ اور دیر کی تو پھر یہ سواری بھی نہیں ملے گی۔ ناصر نے شاید میری نیت بھانپ لی۔پوچھا ’ کیا نیت ہے؟‘ میں نے جھجکتے ہوئے کہا ’ اب گھر نہ چلیں؟‘

’گھر‘ ناصر نے مجھے گھور کے دیکھا ’اب تو میری آنکھیں کھلنی شروع ہوئی ہیں۔ ‘

ناصر کی آنکھیں بھی عجب تھیں۔آدھی رات کے بعد کھلنا شروع ہوتی تھیں یعنی اس وقت جب میری آنکھیں ایک جھپکی کے لیے تلملانے لگتی تھیں… جوں جوں رات بھیگتی ، اس کا جادو جاگتا ہے۔ جادو بھری رات کے اپنے فضائل ہیں۔ رتجگے کی اپنی فضیلت ہے ۔‘‘

ان راتوں میں ایک خاص رات کرسمس کی رات تھی۔انتظار حسین نےایک کالم میں کرسمس کی شب مال روڈ پر گہما گہمی کا نقشہ کھینچا تو بتایا:

’’ یہ شب ناصر کاظمی کے لیے آسمان سے اتری ہوئی نعمت کا درجہ رکھتی تھی‘‘

    ناصر کے ٹھیے ٹھکانے رات کو بند ہوتے چلے جاتے تو  ایسے میں وہ دوستوں کے ساتھ داتا دربار کے آس پاس ان چائے خانوں کا رخ کرتے جو  ساری رات کھلے رہتے ۔ اکثر داتا دربار کے نواح میں واقع میلا رام ٹیکسٹائل ملز سے احمد مشتاق کو بھی ہمراہ کرتے ۔

ناصر اوراحمد مشتاق کےمشترکہ دوست اور ممتاز مترجم شاہد حمید نے لکھا:

’’ہمارے دوست اور نفیس غزل گو احمد مشتاق نے بھی کچھ عرصہ اس(میلا رام ٹیکسٹائل ملز)  میں کام کیا تھا۔ ان کی ڈیوٹی عموماً رات کو ختم ہوتی تھی۔ ہم، ناصر کاظمی، انتظار حسین، مظفر علی سید  راقم الحروف وغیرہ ۔ اکثر اسے لینے جایا کرتے تھے  اور واپسی پر دربار صاحب کے چوک کے ایک ٹوٹے پھوٹے ریستوران میں ، جو ساری رات کھلا رہتا تھا، چائے پیا کرتے تھے ۔‘‘

شیخ صلاح الدین کے بقول ’’ لاہور میں شاید ہی کوئی چائے خانہ ہوگا جس کی دیواروں نے ناصر کاظمی کی گفتگو نہ سنی ہو ۔‘‘

لاہور کو  داتا کی نگری بھی کہتے ہیں ۔ ناصر کا شعر ہے :

 داتا کی نگری میں ناصر

میں جاگوں یا داتا جاگے

 اس طرح جنگ ستمبر کے بارے میں ایک گیت کا مصرع ہے:

داتا کا شہر تو نے پائندہ کردیا ہے

   انتظار حسین کی لاہور کے بارے میں یادداشتیں ’ چراغوں کا دھواں‘ ناصر کے ذکر سے معمور ہیں ۔ اس کا  عنوان ناصر کے  شعر سے ماخوذ ہے :

پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں

چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

ناصر نے ان پرانی صحبتوں کی یاد میں غزل بھی کہی  :

رات ملے کچھ یار پرانے انٹر کانٹی نینٹل میں

یاد آئے پھر کتنے زمانے انٹر کانٹی نینٹل میں

کتنے رنگا رنگ مسافر شانہ بشانہ رقص کناں

چھوڑ گئے کتنے افسانے انٹر کانٹی نینٹل میں

ان ہنستے ہونٹوں کے پیچھے کتنے دکھ ہیں ہم سے پوچھ

ہم نے دیکھے ہیں ویرانے انٹر کانٹی نینٹل میں

میخواروں کی صف سے پرے کچھ ایسے عالی ظرف بھی تھے

بھر نہ سکے جن کے پیمانے انٹر کانٹی نینٹل میں

میں کس کارن پچھلے پہر تک تنہا بیٹھا رہتا ہوں

کون میرے اس درد کو جانے انٹر کانٹی نینٹل میں

یہ کیا حال بنا لائے یہ کیسا روگ لگا لائے

تم تو گئے تھے جی بہلانے انٹر کانٹی نینٹل میں

ناصر تم دنیا سے چھپ کے چپکے چپکے رات گئے

کیوں جاتے ہو جی کو جلانے انٹر کانٹی نینٹل میں

(13/7/1971)

 ناصر شہر کے تخلیقی وقائع نگار بھی ہیں۔ جنگِ ستمبر لاہور کی تاریخ کا وہ واقعہ ہے جس نے سخن وروں کو ذاتی اور تخلیقی ہر دو اعتبار سے متاثر کیا۔اس موقعے پر ناصر کا جذبہ اوروں سے سوا تھا ۔

    چھ ستمبر کو جنگ شروع ہوئی تو ریڈیو پاکستان لاہور میں گیت نگاروں اور گلوکاروں کی یکجائی سے جو نغمے فضا میں بلند ہوئے انھوں نے فوجی جوانوں اور قوم کا خون گرمایا۔چھ ستمبر کے دن جنگ کی اطلاع پاتے ہی ناصر ریڈیو اسٹیشن پہنچے ۔ترانہ رقم کیا ۔اس کے بعد بھی کئی نغمے ان  کے قلم سے نکلے۔

غزل کے دو شعر ملاحظہ ہوں:

شب کی تاریکی میں جو آئے تھے رہزن بن کر

صبح ہوتے ہی وہ رسوا سر بازار ہوئے

جگمگانے لگیں پھر میرے وطن کی گلیاں

ظلم کے ہاتھ سمٹ کر پس دیوار ہوئے

  اس غزل میں بی آر بی نہر کے جنگ میں  کردار کو اس طرح اجاگر کیا ہے۔:

ہم پہ احساں ہے ترا شہر کی اے نہرِ عظیم

تو نے سینے پہ سہے شہر پہ جو وار ہوئے

    ہیئت اور مزاج میں تبدیلی شہروں کا مقسوم ہے لیکن جدید زمانے میں ترقی کی رفتار سے ان کے ظاہر باطن میں جس تیزی سے بدلاؤ آیا ہے اس میں بہت پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی ۔زمانے نے پینترا بدلا۔  آبادی میں اضافہ ہوا،موٹر کی سواری بڑھنے لگی، عمارتیں بلند ہونے لگیں، درخت کٹنے لگے، فضا کثیف ہوئی،اس سب کا اثر انسانی رویوں پر بھی مرتب ہوا۔ان تبدیلیوں کو ناصر نے نہ صرف محسوس کیا بلکہ ان  پر  احتجاج  ریکارڈ کروایا۔اس ضمن میں ناصر کا یہ بیان لائق توجہ ہے جس میں وہ پاکستان بننے کے بعد کا زمانہ  یاد کرتے ہیں:

’’ ان دنوں لاہور کی راتیں جاگتی تھیں۔ جہاں اب نئی آبادیاں بس گئی ہیں، وہاں ہرے بھرے جنگل  تھے (ناصر کا مصرع ہے:یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے) واپڈا ہاؤس کی جگہ میٹرو ہوٹل تھا، جہاں رات گئے تک شہر کے زندہ دل جمع ہوتے تھے۔ اسمبلی کے سامنے ملکہ کے بت کے چاروں طرف درختوں کی سبھا تھی، جو دائرے بنا کر رات بھر ناچتے تھے اور آتے جاتے مسافروں کو اپنی چھاؤں میں لوریاں دے کر سلاتے تھے۔ سڑکوں پر کوئی کوئی موٹر نظر آتی تھی۔ تانگے تھے اور پیدل چلنے والی مخلوق۔ نہ رائٹرز گلڈ تھی نہ آدم جی اور داؤد پرائز تھے اور نہ غیر ملکی وظائف ۔‘‘

یہ شاعر ادیب ہی ہیں جو مستقبلِ مہیب کو بھانپ لیتے ہیں ،دوسروں کو اس سے خبردار کرتے ہیں لیکن بقول محمد سلیم الرحمٰن ’’جو لوگ اپنے عہد کے ضمیر کی گہرائیوں میں اتر کر پیش گوئی کرتے ہیں کہ برے دن آنے والے ہیں ان کی دانائی پر کوئی کان نہیں دھرتا ۔‘‘

 اس لیے  درختوں کے کٹنے پر مجید امجد کی نظم ’توسیع شہر‘ہو، انتظار حسین کا کالم ’درخت کی شہادت‘ ہو  یا ناصر کاظمی کے شعر  ۔کسی نے ان کی بات نہیں سنی ۔الٹا ایسے لوگوں کو ترقی کا دشمن گردانا گیا۔اب یہ حال کہ ہر سو چمچماتی گاڑیوں، بلند عمارتوں اور زرعی زمینوں پر بنی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا دور دورہ ہے۔ لاہور کو ماحولیاتی آلودگی اور سموگ کا سامنا ہے ۔دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔

ناصر نے بہت پہلے کہہ دیا تھا :

اڑ گئے شاخوں سے یہ کہہ کر طیور

اس گلستاں کی  ہوا میں زہر ہے

  احمد مشتاق کے لیے بھی یہ صورت حال پریشان کن ہے :

دھویں سے آسماں کا رنگ میلا ہوتا جاتا ہے

ہرے جنگل بدلتے جارہے ہیں کارخانوں میں

 شیخ صلاح الدین کے بقول ’’ناصر کو لاہور میں بڑھتے ہوئے ٹریفک سے عام شکایت رہتی تھی کہ وہ سڑکوں پر اطمینان سے پیدل چلنے میں حائل رہنے لگا تھا ۔‘‘

اس ساری فضا کا اثر ادب پر بھی پڑ رہا تھا، حکومتیں اور بڑے کاروباری ادارے انعام واکرام کے ذریعے ادیبوں کو قابو کرنے کی کوشش کررہے تھے۔لاہور جو ادبی اعتبار سے برصغیر کے اہم ترین مرکز کا درجہ حاصل کرچکا تھا اس سے بھی ناصر گاہے مایوس ہو جاتے:

وہ شاعروں کا شہر وہ لاہور بجھ گیا

اگتے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی

   ڈائری میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:

’’سنا ہے لاہور مر گیامگر کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ہی مر گئے ہوں۔جسے دیکھو دولت کمانے کی فکر میں گرفتار ہے۔شہر میں ایک بھی دیوانہ نہ رہا۔ طالب علم تو جیسے مر گئے ۔‘‘

اچھا اب یہ وہ لاہور ہے جہاں کے طالب علموں کے بارے میں ممتاز نقاد محمد حسن عسکری نے کبھی یہ رائے قائم کی تھی:

 ’’ بہرحال لاہور کراچی سے ایک بات میں بہتر ہے.کراچی میں ایک دو طالب علم ایسے نکل آتے ہیں جنھیں ادب سے گہرا لگاؤ ہو,لیکن یہ دیوانگی کی حد تک نہیں پہنچتا,لیکن میں جب بھی لاہور جاتا ہوں,یہ دیکھ کر مجھے بڑا اطمینان ہوتا ہے کہ وہاں ہر سال چار پانچ طالب علم ایسے ضرور ہوتے ہیں جو دیوانگی کی روایت نبھائے جاتے ہیں. چاہے دیوانگی دوچار سال سے زیادہ نہ چلےلیکن لاہور کی ادبی فضا میں تھوڑا بہت ہنگامہ تو پیدا کر ہی جاتی ہے ۔‘‘(دسمبر 1954)

لاہور سے ناصر بیزار ضرور ہوتے تھے لیکن یہ عرصہ زیادہ لمبا نہ کھنچتا اوران کا شہر سےشکوہ کبھی شہرت بخاری کے درجے تک نہ پہنچا :

لاہور کہ اہل دل کی جاں تھا

کوفے کی مثال ہوگیا ہے

تیسری پشت ہے لاہور میں شہرت لیکن

جانے کیوں ان دنوں پردیس سا لگتا ہے

  ہر شہر کے مخصوص تہوار ہوتے ہیں۔جن سے وہ پہچانا جاتا ہے ۔ ایسا ایک تہوار بسنت ہے جس کے  بغیر لاہور کی تہذیبی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ رجعت پسند مدتوں سے  پتنگ بازی کے درپے تھے لیکن عوام کی اس سے جذباتی وابستگی اس قدر توانا تھی کہ وہ اپنے مشن میں  کامیاب نہ ہوسکے۔ رجعت پسندوں کی تمنا اس وقت بر آئی جب  بسنت کے تہوار میں قاتل ڈور  سےخون کی سرخی کا رنگ شامل ہوا۔ نااہل حکومتی اداروں نے  دھاتی ڈور بنانے والوں کی سرکوبی کے  بجائے بسنت پر پابندی لگا کر فریضہ ادا کیا۔ اخبارات میں پتنگ بازوں کی گرفتاری کی خبریں شائع ہونے لگیں۔ اب تو لگتا ہے آیندہ نسلوں  کو یہ جاننے کے لیے کہ بسنت کی اس شہر کی زندگی میں کیا اہمیت تھی ، ادیبوں شاعروں کی تحریروں سے  رجوع کرنا پڑے گا۔ ناصر کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے  جو  انہوں نے 1956 کی ایک  ٹھنڈی دوپہر میں لارنس روڈ پر’ ’ہمایوں‘‘ کے دفتر میں بیٹھ کر لکھی تھی:

 کنج کنج نغمہ زن بسنت آ گئی

 اب سجے گی انجمن بسنت آ گئی

 اڑ رہے ہیں شہر میں پتنگ رنگ رنگ

 جگمگا اٹھا گگن بسنت آ گئی

موہنے لبھانے والے پیارے پیارے لوگ

 دیکھنا چمن چمن بسنت آ گئی

 سبز کھیتیوں پہ پھر نکھار آ گیا

 لے کے زرد پیرہن بسنت آ گئی

 پچھلے سال کے ملال دل سے مٹ گئے

 لے کے پھر نئی چبھن بسنت آ گئی

بسنت کی بات صرف شاعری تک محدود نہیں تھی۔ باصر  کاظمی کے بقول کرشن نگر میں ان کے ہاں  ’’بسنت کا دن بہت اہتمام سے منایا جاتا اور ہمارے دوست دور دور سے آتے۔ علاقے کے مکینوں نے برسوں اس چھت سے کبوتر اور پتنگ اڑتے دیکھے ۔‘‘

 لگے ہاتھوں ناصر کے کبوتروں سے تعلق پر بھی بات ہو جائے۔ انہوں نے کبوتر پال رکھے تھے۔ ان کی پہچان بھی بہت رکھتے تھے۔ ڈائری میں کبوتروں کی غذا سے متعلق نسخے درج ہیں۔

کبوتر بازوں سے ان کے یارانے تھے۔ وہ لاہور میں کبوتر کانفرنس بھی کرنا چاہتے تھے۔

 لال کھجوروں کی چھتری پر

 سبز کبوتر بول رہا تھا

کبوتروں سے ناصر کا رشتہ ایسا اٹوٹ تھا کہ مر کر بھی قائم رہا۔ انتظار حسین نے ناصر کے بارے میں تعزیتی کالم  میں لکھا:

’’اوپر کبوتر چکر کاٹ رہے تھے اور نیچے میت سج رہی تھی ۔ میت اٹھنے کا وقت جوں جوں قریب آتا جاتا تھا کبوتروں کی پرواز میں اضطراب پیدا ہوتا جاتا تھا۔ ناصر کاظمی کی میت کبوتروں کے سائے میں گھر سے نکلی۔۔۔ یہ ہم سب نے دیکھا کہ میت اٹھتے وقت ناصر کاظمی کے کبوتر بہت بے قرار تھے۔ اس بے قراری میں انہوں نے چھت سے اٹھ کر اس گھر کے بہت چکر کاٹے اور اپنے یار کو پوری محبت اور احترام سے رخصت کیا ۔‘‘

 ناصر کے ذہن میں شہر کا  وسیع تصور تھا جس میں صرف انسان کو ہی مرکزیت  حاصل نہ تھی۔:

’’شہر اصل میں ایک محض آبادی کا نام تو نہیں ہے یا جس میں بسیں وسیں چلتی ہیں محض۔ شہر تو ایک پورا معاشرہ ہے۔ ایک پتی بھی میرے لیے شہر ہے، ایک درخت بھی شہر ہے، پھول بھی شہر ہے اور دل سے بڑا کیا شہر ہوگا۔‘‘

 انتظار حسین  کی ناصر سے دوسری ملاقات پت جھڑ کے موسم میں مال روڈ پر ہوئی دوپہر میں۔ ناصر نے بتایا کہ وہ پتے دیکھنے جارہے ہیں۔ انتظار حسین نے حیرت ظاہر کی تو جواب ملا کہ آج پتے بہت گرے ہیں اور وہ لارنس کی طرف جا کر انہیں دیکھیں گے۔ انتظار حسین کو بھی ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ ناصر نے رستے میں کہا’ یہ پت جھڑ کی رُت ہے۔ یہ رُت مجھے بہت خراب کرتی ہے۔ گرتے پتوں کو دیکھ کر میں اداس ہوجاتا ہوں‘۔

پتیوں کے غم خوار ناصر کاظمی کے یہ شعر بھی دیکھیے:

پتیاں روتی ہیں سر پیٹتی ہیں

 قتل گل عام ہوا ہے اب کے

 آج تو شہر کی روش روش پر

 پتوں کا میلہ سا لگا ہے

ناصر  شہر کا نوحہ گر تھا۔ حفیظ ہوشیار پوری نے ناصر کی زمین میں انہی کے بارے میں شعر کہا تھا:

آہ وہ نوحہ گر شہر طرب

تم نے ناصر کو تو دیکھا ہوگا

 قیام پاکستان کے بعد بے سروسامان ناصر کے سر پر درختوں کا سایہ تھا۔ وہی ان  کے یاور تھے:

 ’’ بس کچھ درخت تھے۔ ہاتھ ملا کر ناچتے تھے اور ایسا لگتا تھا رات بھر درخت چاندنی میں ناچتے تھے اور ان کے ساتھ ساتھ ہم پھرتے تھے۔ وہ راتیں ہری تھیں‘‘

کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دور

جاکے دیکھو کبھی درختوں میں

 پیپل کا وہی پیڑ پرانا

میرا رستا دیکھ رہا تھا

درخت کے زمین بوس ہونے سے انسان سائے سے محروم ہوتا ہے۔ فضا مکدر ہوتی  ہے۔ پرندوں سے مسکن  چھن جاتا ہے۔ ان کی آواز گم ہو جاتی ہے۔ وہ ہجرت کرجاتے ہیں۔ فنکار ان کی خاموشی اور کمی محسوس کرتا ہے۔

  فاختہ چپ ہے بڑی دیر سے کیوں

سرو کی شاخ ہلا کر دیکھو

  شمیم حنفی کا کہنا ہے ناصر کاظمی کے بعد سے یہ فاختہ اردو شاعری میں چپ ہے۔

  ایک زمانے میں پرندوں کی آوازوں سے اپنے ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ حجاب امتیاز علی نے ایک دن مشرق اخبار کے دفتر فون کرکے  انتظار حسین سے کہا کہ ساون لگ چکا ہے لیکن کوئل کی آواز کانوں میں نہیں پڑی۔

پرندوں کی خاموشی احمد مشتاق کو بھی کھلتی ہے :

کیوں طائرانِ شاخ و شجر بولتے نہیں

یا پھر یہ شعر :

 کوے کہاں چلے گئے چڑیوں کو کیا ہوا

جو بولتے تھے شام وسحر بولتے نہیں

لیکن ناصر کے زمانے میں کوئل کوکتی تھی۔:

سب اپنے گھروں میں لمبی تان کے سوتے ہیں

 اور دور کہیں کوئل کی صدا کچھ کہتی ہے

 چڑیا کی کائنات میں اہمیت  ایک فنکار ہی جان سکتا ہے شکاری نہیں۔ دستو ئیفسکی کے ناول’ ایڈیٹ‘ میں یہ جملہ ملتا ہے:

’’میرے خیال میں چڑیا سے پیاری کوئی ہستی نہیں ہے دنیا میں ‘‘

معروف نقاد سہیل احمد خان کے  ایک مضمون سے انسانوں سے نالاں چڑیوں کی یہ رائے معلوم ہوتی ہے:

’ ایک سائنس دان ہے لورین ایزلے، اس کا ایک جملہ مجھے بہت پسند آیا تھا۔ اس نے لکھا کہ جب میں صبح دیکھتا ہوں کہ چڑیاں نیو یارک کی کسی اونچی چھت سے چہچہا رہی ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ یہ ایک دوسرے سے پوچھ رہی ہیں کہ یہ انسان کائنات سے دفع ہوگیا ہے یا نہیں ؟‘

   انسان درخت دشمنی پر اتر آیا ہے۔ محسن کش جو ہوا۔ لیکن چڑیوں کا درختوں سے جذباتی لگاؤ کم نہیں ہوا۔ پروین شاکر کا شعر ہے:

کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے

چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

چڑیوں کے بارے میں یہ ساری تمہید اس لیے اٹھائی ہے کہ ناصر کو  چڑیوں سے بڑی محبت تھی۔ ایک دن بارش میں چڑیا کا بچہ آشیانے سے گر گیا۔ ناصر نے اس کا درد محسوس کیا۔ ہمسائے سے سیڑھی مانگ کر  ’ اس ننھی سی جان کو اس کے گھر پہنچایا۔‘

زندگی کے آخری دنوں تک ناصر کا چڑیوں سے محبت کارشتہ قائم رہا۔ انہوں نے ہسپتال سے انتظار حسین کے ذریعے ایک پیغام بھیجا جس سے ان کے تصورِ شہر اور وسعت ذہنی کا اندازہ ہوتا ہے:

 ناصر : میرا سلام کہیے لاہور شہر کے نواح سے، دوستوں سے، قہوہ خانوں سے، درختوں سے، چڑیوں سے، پرندوں سے۔

انتظار: درخت اور چڑیاں جن سے میری ملاقات ہے وہ تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔

ناصر: میں بھی انہیں یاد کرتا ہوں ۔

انتظار حسین نے ناصر کاظمی کے انتقال پر  ’چڑیوں سے ناصر کاظمی کی آخری ملاقات‘، کے عنوان سے کالم میں لکھا:

 ’ہسپتال میں پڑے ہوئے ناصر کاظمی کا یہ طریقہ تھا کہ جب رات کا کجرا ڈھلتا اور پوپھٹنےکے ساتھ چڑیاں بولتیں تو اپنے سرہانے کے قریب کے دریچے سے پردہ ہٹاتا اور چہکتی چڑیوں اور نکلتے سورج کا مشاہدہ کرتا۔ جمعرات کی شب ناصر پر بہت بھاری گزری۔ اسی جانکنی میں اس نے وقفے وقفے سے اپنے سب دوستوں کو یاد کیا۔ ان دوستوں کو اس کے لیے یاد کر لینا ہی کافی تھا۔ مگرکچھ دوست ایسے تھے جن سے ملے بغیر وہ رخصت نہیں ہو سکتا تھا۔ سو رات جیسے تیسے گزری۔ جب پو پھٹی اور چڑیوں کی چہکار بلند ہوئی تب ناصر کو قرار آیا اور اس نے آنکھ بند کرلی۔ٗ

اوپر ذکر ہوا ہے ناصر کے عام آدمی سے میل جول کا تو مال روڈ پر ایک سائن بورڈ بنانے والے سے بھی ان کی  ملاقات تھی جو ان کے انتقال کے دن ‘ سر کی چھایا’ میں شامل یہ دوہا دہراتا رہا:

چڑیاں ترسیں گھونٹ کو دھرتی دھول اڑائے

تم رہو اس دیس میں ہم سے رہا نہ جائے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp