مہنگائی اور رمضان: کیا دنیا کے دیگر مسلمان بھی مشکل کا شکار ہیں؟

منگل 28 مارچ 2023
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور ایک عام پاکستانی کی قوت خرید میں 40 فیصد سے بھی زائد کمی آئی ہے جبکہ یہ مسئلہ رمضان المبارک میں دوچند ہوچکا ہے لیکن خٓصوصا اس ماہ مقدس میں اشیائے ضروریہ کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے محض وطن عزیز میں ہی طوفان برپا کیا ہوا ہے یا برطانیہ اور امریکا سمیت دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی مسلمان پریشانی کا شکار ہیں۔

اس حوالے سے الجزیرہ نے ایک جامع رپورٹ شائع کی ہے جس میں مختلف ممالک میں مہنگائی کے ہاتھوں پریشان حال روزے داروں کی حالت زار اجاگر کی گئی ہے۔ رپورٹ کا کہنا ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں دنیا بھر کے کروڑوں مسلمان مہنگائی کا شکار ہیں۔ یوکرین میں روس کی جنگ کے دوران خوراک اور توانائی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جبکہ کویڈ 19 جسیے وبائی امراض اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق واقعات کے بھی دیرپا اثرات عالمی معیشت پر پڑ رہے ہیں۔

خاص طور پر مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ جہاں دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت رہتی ہے قیمتوں میں اضافے اور اہم سپلائیز کی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کا تخمینہ ہے کہ سنہ 2022 میں 79 ممالک میں 34 کروڑ 90 لاکھ افراد شدید طور پر خوراک کے عدم تحفظ کا شکار تھے جن میں سے 14 کروڑ نفوس سے زائد کو امداد کی ضرورت تھی اور سال 2023 میں بھی اس تعداد میں کمی کی کوئی توقع نہیں ہے۔ ایشیا اور افریقہ غذائی قلت کے شکار افراد کی ایک بڑی تعداد کے لحاظ سے سرفہرست ہیں.

ڈبلیو ایف پی کے ماہر معاشیات فریڈریک گریب کا کہنا ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں اضافہ خاندانوں کو خصوٓصاً کھانے پینے کی اشیا پر اخراجات کم کرنے پر مجبور کرتا ہے کیوں کہلوف اپنی آمدنی کا 50 فیصد سے زائد کھانے پر خرچ کرتے ہیں۔

رمضان کے دوران کیا کھانے پینے کی زیادہ قیمتیں گھرانوں کو کھجور، کیک، بسکٹ اور میٹھے جوس سمیت روایتی اشیا کو کم کرنے پر مجبور کر دیں گی یا انہیں سستے متبادل کے ساتھ بدل دیں گی؟ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے لیے قیمتی زندگی کا بحران کیسے چل رہا ہے؟ کیا اس کے دوسرے سماجی نتائج ہو سکتے ہیں؟ اور کیا خیراتی ادارے مدد کر سکتے ہیں؟ ان باتوں کا مختصر جواب یہ ہے کہ تمام ممالک میں جو ریکارڈ بلند قیمتوں سے متاثر ہیں، بہت سے لوگ ممکنہ طور پر رمضان کی روایتی تقریبات کو پیچھے چھوڑ دیں گے جن میں کھانے کے علاوہ خریدے جانے والے تحائف بھی شامل ہیں-

خیراتی اداروں، کمیونٹی رہنماؤں اور مسلم خاندانوں کا کہنا کہا ہے کہ امدادی گروپ مدد کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بحران کمیونٹی کو غیر متوقع طریقوں سے اکٹھا بھی کر سکتا ہے۔

مشرق وسطیٰ:

عالمی قوتوں کے علاوہ خطے کی دیگر معیشتیں بھی جنگوں، خشک سالی، دیگر قدرتی آفات اور  مقامی عوامل سے متاثر ہوئی ہیں۔ شام میں جنگ کے آٖغاز کے 12 سال بعد 90 فیصد سے زیادہ شامی آج غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

فروری میں آنے والے مہلک زلزلوں کے نتیجے میں ان کی معاشی حالت مزید ابتر ہونے کا خدشہ ہے۔ ترکی اور شام میں 50 ہزار سے زائد افراد زلزلے سے ہلاک ہوئے اور ترکی میں گزشتہ ماہ افراط زر کی شرح 55 فیصد رہی۔

مصر میں جہاں افراط زر کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور فروری میں تقریباً 32 فیصد کو چھو گئی، حکومت نے غریبوں پر اثرات کو نرم کرنے کے لیے قدم اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اس نے رمضان بازاروں کو رعایتی طور پر کھولا، جہاں آٹا، گوشت اور پاستا جیسے غذائی اجزا دیگر مقامات کے مقابلے میں 30 فیصد تک کم قیمتوں پر فروخت ہوتے ہیں۔ پھر بھی، مشرق وسطی کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں خوراک کی افراط زر بڑھ گئی ہے اور گزشتہ ماہ 61 اعشاریہ 8 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

ڈبلیو اف پی کے فریڈریک گریب نے کہا کہ ایک بار جب خوراک کی افراط زر 15 فیصد سے تجاوز کر جائے گی اور اس سے پناہ گاہ، صفائی ستھرائی اور نقل و حمل سمیت دیگر اخراجات پر نمایاں اثر پڑے گا۔

لیکن اس خطے میں کوئی بھی قوم  مہنگائی کے اس بحران کا اتنا مقابلہ نہیں کر رہی ہے جتنا کہ لبنان جہاں اس کے اثرات خاص طور پر رمضان کے دوران کھانے کی میز سے لے کر سماجی اجتماعات تک نظر آئیں گے۔ لبنان، جو کہ ایک گہرے اقتصادی، سیاسی اور سماجی بحران کے چوتھے سال میں ہے جبکہ دنیا میں فی کس سب سے زیادہ مہاجرین کی میزبانی بھی کر رہا ہے، تین ہندسوں کی افراط زر کا شکار ہے جو جنوری میں 123 فیصد رہی۔

امریکن نیئر ایسٹ ریفیوجی ایڈ کے مطابق روایتی افطار ڈنر کا اہتمام جو لبنان کا ایک خاصہ تھا اب اس کے 80 فیصد لوگوں کے بس سے باہر ہوگا۔ سنہ 2019 کے اواخر سے لبنانی پاؤنڈ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 98 فیصد کم ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ حلیم فاتوش، جو ایک مقبول سلاد ڈش ہے کی قیمت 2020 میں  4 ہزار 250 پاؤنڈ سے بڑھ کر اس سال سوا دو لاکھ پاؤنڈ ہوگئی ہے۔

ڈبلیو ایف پی کے مطابق اپریل 2023 تک خوراک کی عدم تحفظ سے لبنان میں 14 لاکھ 60 ہزار لبنانی اور 8 لاکھ شامی مہاجرین کے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔این جی او کیئر لبنان کی ترجمان پیٹریشیا کھوڈر کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے کھانے پینے کے انداز کو تبدیل کر کے اس کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کھودر نے کہا کہ لوگ دن کے اختتام پر کریانہ کی دکان پر بچی ہوئی چیزیں خریدنے جاتے ہیں اور اگر انہیں کھانے کے پارسل نہیں ملتے تو وہ پڑوسیوں سے چاول ادھار لیتے ہیں۔

مصالحہ دار لبنانی کوفتہ، مقبول کلاج پیسٹری کا آٹا اور ایک روائتی جوس جو میٹھے کھجور کے گڑ سے بنایا جاتا ہے اور اسے بادام سے گارنش کیا جاتا ہے اور یہ تمام اشیا بڑے اہتمام سے افطاری کے لیے استعمال ہوتی ہیں لیکن اب بہت سے گھرانوں کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اب کچھ لوگ صرف روٹی بنا رہے ہیں حالانکہ ایک روٹی کی قیمت بھی سنہ 2018 میں ڈیڑھ ہزار پاؤنڈ سے بڑھ کر 39 ہزار پاؤنڈ سے زائد ہوچکی ہے۔

انڈونیشیا:

مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک انڈونیشیا ہے جہاں ایک نئی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 70 فیصد عام صارفین اس رمضان میں اپنے لیے خریداری پر کم خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ایک سروے کے مطابق ایک تہائی سے زیادہ نے کہا کہ وہ مہینے کے دوران سفر نہیں کریں گے اور 43 فیصد نے کہا کہ وہ تحائف پر اپنے اخراجات میں کمی کریں گے۔

بنگلا دیش:

دریں اثنا بنگلا دیش میں وزارت تجارت نے اس ماہ کے شروع میں پیش گوئی کی تھی کہ ضروری اشیا بشمول بسکٹ، روٹی اور تیل کی مانگ میں گزشتہ سال کے مقابلے اس رمضان میں 20 فیصد کمی آئے گی۔ ملک کی مہنگائی کی شرح جو صرف 9 فیصد سے نیچے ہے اب اس سطح پر ہے جو ایک دہائی میں نظر نہیں آئی۔

میانمار سے بنگلا دیش آنے والے 10 لاکھ سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کے لیے کسی جشن کا اہتمام تو درکنار اب زندہ رہنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔

افریقہ:

کینیا کے ایک کمیونٹی گروپ، کینین مسلم نیشنل ایڈوائزری کونسل کے سربراہ نگاؤ نے بتایا کہ ملک کے بہت سے افراد دن میں تین وقت کا کھانا حاصل نہیں کر پاتے ہیں کیونکہ اشیا بہت مہنگی ہیں۔

مزید برآں شدید خشک سالی کی صورت میں 5.4 ملین کینیا کے باشندوں کو مارچ اور جون کے درمیان مناسب خوراک اور پانی کے بغیر رہنا پڑے گا۔نگاؤ نے خدشے کا اظہار کیا کہ زکوٰۃ کی امداد جو دولت مند مسلمان روایتی طور پر رمضان کے دوران پیش کرتے ہیں اسے بھی نقصان پہنچ سکتا ہے اور بہت سے کاروباری لوگ اس بار زکوٰۃ نہیں دے سکیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم عام طور پر خاندان کے افراد کو مدعو کرتے ہیں لیکن خراب معیشت اسے بھی محال بنا دے گی۔دریں اثنا، جنوبی افریقہ میں یہ بحران کم از کم رمضان کے دوران لوگوں کو قریب لا سکتا ہے۔کیپ ٹاؤن کی مسلم جوڈیشل کونسل کے ایک اعلیٰ عہدیدار شیخ موغامت صفوان صسمان نے کہا کہ اجتماعی افطاریاں عام ہوتی جا رہی ہیں۔انوں نے مزید کہا کہ مسجدیں لوگوں کو گھر میں افطار کرنے کی بجائے مسجد میں افطار کرنے کی ترغیب دے رہی ہیں۔

 

برطانیہ اور امریکا:

اس بحران سے مغرب کی مسلم کمیونٹیز کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ امریکا میں نیویارک سٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ دو اسلامی خیراتی اداروں کے ساتھ مل کر رمضان کے دوران ضرورت مند خاندانوں میں 7 ہزار 500 افطاریاں تقسیم کر رہا ہے۔

برطانیہ میں نیشنل زکوٰۃ فاؤنڈیشن کے سی ای او سہیل حنیف نے کہا کہ اس سے پہلے انہوں نے برطانوی مسلم کمیونٹی کو ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے اتنی جدوجہد کا سامنا کرتے نہیں دیکھا۔ “انہوں نے صورتحال کو بد ترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ادارے کو اب ہر 40 منٹ میں زکوٰۃ کی امداد کے لیے ایک نئی درخواست موصول ہو رہی ہے جس کی کل مانگ سنہ 2021 کے مقابلے میں دگنی ہے۔

کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں 40 سے زائد سالوں میں تیز ترین شرح سے بڑھ رہی ہیں۔ کھانے اور غیر الکوحل مشروبات کی افراط زر جنوری میں 16 اعشاریہ 8 فیصد رہی۔ دفتر برائے قومی شماریات کے مطابق جنوری سے 12 ماہ کے دوران برطانیہ میں بجلی کی قیمتوں میں 66 اعشاریہ 7 فیصد اور گیس کی قیمتوں میں 129 اعشاریہ 4 فیصد اضافہ ہوا۔

برطانیہ کے ایگریکلچر اینڈ ہارٹیکلچر ڈویلپمنٹ بورڈ کے مطابق اخراجات میں یہ اضافہ برطانوی مسلمانوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کر رہا ہے اور ان میں سے 19 فیصد نے گزشتہ سال کے دوران فوڈ بینکوں کا رخ کیا۔

اس کا براہ راست اثر برطانیہ میں عید کی تیاریوں پر بھی پڑ رہا ہے۔ اے ایچ ڈی بی کی رپورٹ کے مطابق برطانوی مسلمان بھیڑ کے بچے سے سستے مٹن اور چکن کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

اشتہاری کاروبار نینو انٹرایکٹو کے ذریعہ 236 مسلمانوں کے سروے میں، 45 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ اس سال بڑھتے ہوئے زندگی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مزید گھنٹے کام کرنے کی توقع رکھتے ہیں، 41 فیصد نے کہا کہ وہ افطاری میں کم کھائیں گے اور 40 فیصد سے زیادہ پیسے بچانے کے لیے اپنے بجٹ سے مطابقت رکھنے والے گروسری اسٹورز کا رخ کر رہے ہیں جبکہ 61 فیصد نے کہا کہ وہ تحائف پر بہت کم خرچ کریں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp