بلوچستان میں کانگو وائرس سے متاثرہ 2 مریض دم توڑ گئے ہیں جبکہ 3 کی حالت تشویشناک ہے، مزید 4 کیس سامنے آگئے ہیں۔
کوئٹہ میں کانگو وائرس سے متاثرہ 1 خاتون سمیت 2 افراد دم توڑ گئے ہیں، جاں بحق مریضوں میں بی بی عائشہ کا تعلق قلعہ سیف اللہ جبکہ عبدالقیوم کا تعلق غوث آباد کوئٹہ سے ہے۔
مزید پڑھیں
مزید 4 مریضوں میں کانگو وائرس کی تشخیص ہوئی ہے، مریضوں کو ناک منہ سے خون آنے اور شدید بخار کی شکایت پر اسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
مریضوں کی عمریں 23 سے 55 سال ہیں، مریضوں میں 1 تعلق کوئٹہ، 2 قلعہ سیف اللہ اور1 کابرشور توبہ کاکڑی کا تعلق پشین سے ہے، 3 مریضوں کی حالت بھی تشویشناک بتائی جارہی ہے۔
رواں سال کانگو وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 11 جبکہ جاں بحق افراد کی تعداد2 ہوگئی ہے۔
کانگو وائرس کیا ہے اور یہ کیسے پھیلتا ہے؟
اقوام متحدہ کا عالمی ادارے برائے صحت ڈبیلو ایچ اور کے مطابق کانگو وائرس جس کو کریمین کانگو ہیمرجک فیور (سی سی ایچ ایف) کہا جاتا ہے۔ ایک وائرل بخار کی قسم ہے جو عام طور پر چچڑوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔
جانوروں کے ذبح کرنے کے دوران اور فوری طور پر اس کا وائرس جانوروں کے بافت(جانوروں کے ٹشو جہاں سے وائرس خون میں داخل ہوا ہے) سے رابطے کے ذریعے بھی ہوسکتا ہے۔ کانگو وائرس پھیلنا صحت عامہ کی خدمات کے لیے خطرہ ہے کیونکہ یہ وائرس وبائی امراض کا باعث بن سکتا ہے جس میں اموات کا تناسب 10 سے 40 فیصد تک ہوتا ہے۔
ممکنہ طور پر اسپتال اور صحت کی سہولیات کے پھیلنے کا سبب بنتا ہے اور اس کی روک تھام اور علاج مشکل ہے۔ کانگو وائرس افریقا، بلقان، مشرق وسطیٰ اور ایشیا میں مقامی ہے۔ یہ بیماری پہلی بار سنہ 1944 میں جزیرہ نما کریمین میں بیان کی گئی تھی اور اسے کریمین ہیمرجک فیور کا نام دیا گیا تھا۔
سنہ 1969 میں یہ تسلیم کیا گیا کہ کریمین ہیمرجک بخار کا سبب بننے والا پیتھوجین وہی تھا جو سنہ 1956 میں کانگو بیسن میں شناخت کی گئی بیماری کا ذمہ دار تھا۔ 2 جگہوں کے ناموں کے ربط کے نتیجے میں بیماری اور وائرس کا موجودہ نام نکلا۔