قومی اسمبلی نے مالی سال 25-2024 کے فنانس بل کی منظوری دے دی ہے، ایوان نے کثرت رائے سے 18 ہزار 877 ارب روپے کے فنانس بل کی منظوری دی ہے، اس موقع پر پاکستان پیپلزپارٹی نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں کمی کی ترامیم واپس لے لیں، اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے نئے معاہدے کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے۔
مزید پڑھیں
قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اور دیگر بھی شریک ہوئے، جبکہ اس موقع پر اپوزیشن کا کہنا تھا کہ یہ آئی ایم ایف کا تیار کردہ بجٹ ہے جس میں عوام کے لیے کچھ بھی نہیں۔
اجلاس میں پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں کمی کے اپوزیشن کے مطالبے پر ایوان میں رائے شماری کرائی گئی تو 170 ارکان نے خلاف ووٹ دیا تاہم وزیر خزانہ نے خود ہی پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں کمی کا اعلان کیا۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس جمعہ پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں دوبارہ شروع ہوا جہاں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فنانس بل پیش کیا۔
ایوان نے یکم جولائی 2024 سے شروع ہونے والے سال کے لیے وفاقی حکومت کی مالیاتی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بعض ترامیم کے ساتھ فنانس بل 2024 کی منظوری دے دی ہے۔
معیشت نے استحکام حاصل کر لیا ہے
فنانس بل 2024 پر اپوزیشن کے نکات کا جواب دیتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ معیشت نے استحکام حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے معیشت کو ترقی کی جانب گامزن کرنے کے مقصد کے ساتھ معاشی استحکام کے عمل کو مزید آگے بڑھانے کے لیے حکومت کے عزم کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں اور افراط زر 38 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں اضافہ اور سرکاری اداروں اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات آئندہ مالی سال کے بجٹ کا حصہ ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اگلے تین سالوں میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب بڑھا کر 13 فیصد کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا نجکاری کا منصوبہ2 سے 3سال پر مشتمل ہے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
ٹیکس محصولات کا ہدف 13 ٹریلین ڈالر رکھا گیا
بجٹ کی اہم خصوصیات میں نئے مالی سال کے لیے ٹیکس محصولات کا ہدف 13 ٹریلین روپے (46.66 ارب ڈالر) شامل ہے، جو رواں سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔
نئے ٹیکسوں میں براہ راست ٹیکسوں میں 48 فیصد اور بالواسطہ ٹیکسوں میں 35 فیصد اضافہ شامل ہے۔ پیٹرولیم لیویز سمیت نان ٹیکس ریونیو میں 64 فیصد اضافے کا امکان ہے۔
تنخواہ دار طبقہ اپنی آمدنی پر زیادہ براہ راست ٹیکس ادا کرے گا
ٹیکسٹائل، چمڑے، موبائل فونز اور رئیل اسٹیٹ سے حاصل ہونے والے سرمائے کے حصول کو نئے بجٹ میں محصولات کے نئے اقدامات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے شعبوں میں شامل کیا گیا ہے۔ دریں اثنا، تنخواہ دار طبقہ اپنی آمدنی پر زیادہ براہ راست ٹیکس ادا کرے گا۔
مالیاتی خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 5.9 فیصد مقرر
نئے مالی سال کے لیے مالیاتی خسارے کا ہدف جی ڈی پی کا 5.9 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں اقتصادی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے جبکہ افراط زر کی شرح 12 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے 2 ہفتے قبل بھاری ٹیکسوں کے ساتھ بجٹ ترامیم تجاویز اور بحث کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا جس پر اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی اور اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے فنانس بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جسے وزیر اعظم شہباز شریف اور حکمران اتحاد کی جانب سے اپوزیشن کی تجاویز اور ترامیم پر بحث کے لیے پیش کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے بجٹ مسترد کردیا
حزب اختلاف کی جماعتوں، خاص طور پر سابق وزیر اعظم عمران خان کے حمایت یافتہ ارکان پارلیمنٹ نے بجٹ کو یکسر مسترد کر دیا اور کہا کہ اس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان آگے گا۔
اس سے قبل منگل کو پیپلز پارٹی جس نے ابتدائی طور پر بجٹ کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے دوران بائیکاٹ کر دیا تھا، نے کچھ تحفظات کے باوجود فنانس بل کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ کیا۔
ناراض پیپلز پارٹی نے بھی بجٹ منظوری کے لیے ووٹ دے دیا
پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے پارٹی اجلاس کے بعد پریس بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر پارٹی بجٹ کے لیے ووٹ نہیں دیتی تو یہ حکومت کو گرانے اور ملک میں عدم استحکام کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہوگا۔
نوید قمر نے زور دے کر کہا تھا کہ حکومت کے پاس اب اعداد و شمار ہیں اور یہ بجٹ منظور کیا جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ حکمران اتحاد کی ایک اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے ارکان نے بھی تنخواہ دار اور متوسط طبقے کے لوگوں پر ٹیکس لگانے کے حکومتی اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ ملک میں مزید مہنگائی لائے گا۔
سپیکر سردار ایاز صادق نے براہ راست ٹی وی ٹیلی کاسٹ میں بل پیش کرنے کا اعلان کیا۔ مرکزی بینک نے بجٹ سے ممکنہ افراط زر کے اثرات کے بارے میں بھی خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات میں محدود پیش رفت کا مطلب ہے کہ محصولات میں اضافہ ٹیکسوں میں اضافے سے ہونا چاہیے ۔
فضائی سفر پر اضافی ٹیکس
اجلاس کے دوران یہ بھی اعلان کیا گیا کہ یکم جولائی سے امریکا اور کینیڈا کے لیے بزنس کلاس اور کلب کلاس کے ٹکٹوں پر ایک لاکھ روپے کا اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
یورپ میں بزنس کلاس اور کلب کلاس کے ٹکٹوں پر اسی تاریخ سے 60 ہزار روپے کا اضافی ٹیکس عائد کیا جائے گا۔ اسی طرح نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے بزنس اور کلب کلاس کے ٹکٹوں پر 60 ہزار روپے کا اضافی ٹیکس لاگو ہوگا۔
دبئی، سعودی عرب اور دیگر مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک کے ٹکٹوں میں بزنس اور کلب کلاس کے سفر کے لیے 30 ہزار روپے کا اضافہ کیا جائے گا۔
حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پر لیوی 60 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔
لائٹ ڈیزل آئل اور مٹی کے تیل پر 50 روپے فی لیٹر لیوی عائد کی جائے گی جبکہ ہائی آکٹین پر 70 روپے فی لیٹر لیوی عائد ہوگی۔
وزیر اعظم کی کے پی حکومت پر شدید تنقید
اجلاس کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے خیبر پختونخوا حکومت سے سوال کیا کہ وہ گزشتہ 14 سال کے دوران 590 ارب روپے وصول کرنے کے باوجود کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے رکن اسد قیصر کی جانب سے اٹھائے گئے پوائنٹ آف آرڈر کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ این ایف سی کے تحت صوبہ خیبر پختونخوا کے لیے ایک فیصد اضافی حصہ مختص کیا گیا ہے تاکہ دہشتگردی کے خلاف کوششوں کو بڑھایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ آخری این ایف سی ایوارڈ 2010 میں سید یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے اس وقت طے کیا تھا جب دہشتگردی اپنے عروج پر تھی اور کے پی صوبے کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا تھا، اس کے بعد بلوچستان اور دیگر صوبے تھے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کے پی کے عوام دہشتگردی کے خلاف فرنٹ لائن سپاہی رہے ہیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ این ایف سی میں کے پی کا اضافی ایک فیصد حصہ اب بھی برقرار ہے اور دہشتگردی کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کی بے پناہ قربانیوں کے باوجود بلوچستان سمیت کسی دوسرے صوبے کو اس طرح کے فنڈز نہیں ملے اور نہ ہی اس پر اعتراض کیا گیا۔
انہوں نے ایوان کو بتایا کہ 2010 سے اب تک صوبہ خیبر پختونخوا کو 590 ارب روپے موصول ہوئے ہیں لیکن ابھی تک سی ٹی ڈی قائم نہیں کی جاسکی جس کے لئے بنیادی طور پر فنڈز مختص کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اتنے بڑے فنڈز ملنے کے باوجود سی ٹی ڈی اب تک نامکمل کیوں ہے۔
اپوزیشن رکن کے ایک اور اعتراض پر وزیر اعظم نے ایوان کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے روایت کے مطابق 3 افراد پر مشتمل پینل بھیجا تھا جس میں کے پی حکومت سے کہا گیا تھا کہ چیف سیکریٹری کی تقرری کے لیے ایک افسر کا انتخاب کیا جائے جس کا انہوں نے اب تک فیصلہ نہیں کیا ہے۔
انہوں نے یہ بھی پیش کش کی کہ اگر صوبائی حکومت چاہے تو پینل پر نظر ثانی کی جائے گی لیکن انہوں نے صوبے کے خلاف کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کے الزامات کو مسترد کردیا۔
عوامی حقوق کے قاتل بجٹ کو قبول نہیں کریں گے، عمر ایوب
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے اپنے خطاب میں کہا کہ ان کی جماعت صنعت مخالف اور عوام دشمن بجٹ کو مسترد کرتی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے بجٹ کو عوام کے خلاف معاشی دہشتگردی قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومتی بینچ عوام کے قاتل ہیں جو معاشی حقائق سے لاعلم ہیں۔
اس بجٹ کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس بجٹ سے کوئی معاشی ترقی نہیں ہوگی، بجلی کی قیمتیں 70 روپے سے بڑھ کر 85 روپے ہو جائیں گی۔
بجٹ میں کفایت شعاری کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، گوہر خان
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ بجٹ میں کفایت شعاری کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور موجودہ حکومت کے دور میں بڑی تعداد میں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کے پی کو اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ اس کے عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے۔
کمپیوٹرز اور اسٹیشنری پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے، عالیہ کامران
جمعیت علمائے اسلام (ف) کی رکن اسمبلی عالیہ کامران نے کہا کہ بجٹ میں کئی نقائص ہیں اور طبی آلات پر ڈیوٹی لگانے سے غریبوں کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی۔
تجاویز کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر بجٹ منظور ہو جاتا ہے تو اس سے دودھ اور اسٹیشنری کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ اب بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی طبی سامان عطیہ نہیں کر سکیں گے۔ کمپیوٹرز پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔