سمجھ نہیں آرہا ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کی تعریف کروں یا جنوبی افریقہ کو صلواتیں سناؤں، سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی ٹیم جسے آخری 30 گیندوں پر 30 رنز درکار تھے وہ ٹیم کیسے 7 رنز سے میچ ہار سکتی ہے؟
جب بھارت نے جنوبی افریقہ کو 177 رنز کا ہدف دیا تو اسی وقت خوف ہوگیا تھا کہ جنوبی افریقہ شاید میچ نہ جیت سکے، پھر جب ابتدا میں ہی اس کی 2 اہم وکٹیں گر گئیں تو یہ خوف یقین میں بدل گیا، لیکن جس انداز میں ہینرک کلاسن نے دھواں دھار اننگ کھیلی اس کے بعد تو جنوبی افریقہ کی جیت یقینی ہوچکی تھی۔
جب آخری 5 اوور میں جنوبی افریقہ کو صرف 30 رنز درکار تھے اور اس کی 5 وکٹیں باقی تھیں اس وقت سب سے مایوس بھارتی کپتان روہت شرما دکھائی دیے، لیکن انہیں بہرحال اس بات کا کریڈٹ دینا چاہیے کہ وہ آخر تک ہمت نہیں ہارے۔
میچ کا بہترین کھلاڑی ویرات کوہلی کو قرار دیا گیا، مگر یہ اعزاز آج کے میچ میں جسپریت بمراہ کو ملنا چاہیے تھا کہ بھارت کو یہ جیت انہی کی وجہ سے نصیب ہوئی۔
تصور تو کیجیے کہ کسی بولر کو اپنے آخری 2 اوورز ایسے وقت کرنے ہیں جب اس کی ٹیم کی جیت کا امکان تقریباً ختم ہوچکا ہے مگر وہ آتا ہے اور اپنے 2 اوورز میں صرف 4 رنز دے کر 1 وکٹ بھی حاصل کرلیتا ہے۔ کوئی بولر ایسا کیسے کرسکتا ہے، مجھے تو یہ بھی اب تک سمجھ نہیں آیا۔
جب ہم کہتے ہیں کہ کرکٹ آج بھی وہ واحد کھیل ہے جس میں کپتان کا کردار سب سے زیادہ ہے تو روہت شرما نے اسے ثابت بھی کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کپتان کا کوئی ایک فیصلہ میچ کو فیصلہ کن بنا سکتا ہے، اور ایسے ہی فیصلے کا وقت 18ویں اوور میں آیا جب روہت شرما کو یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ ارشدیپ سنگھ، ہاردک پانڈیا اور بمراہ میں سے کسے یہ اہم ترین اوور دیں۔ کوئی اور کپتان ہوتا تو وہ اپنے بہترین بولر کو آخری اوور کے لیے سنبھال کر رکھ لیتا، لیکن روہت شرما وکٹ لینے کے لیے گئے اور بمراہ نے انہیں بالکل مایوس نہیں کیا۔
اس میچ میں روہت شرما نے یہ بھی بتایا کہ کسی بھی کپتان کو اپنی ذات کے بجائے ٹیم کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب آئی پی ایل میں ممبئی انڈینز نے روہت شرما کے بجائے ہاردک پانڈیا کو کپتان بنایا تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا تھا، پانڈیا لوگوں کی نفرت کا بھرپور نشانہ بن رہے تھے، اور ایسا لگ رہا تھا کہ شرما اس حرکت کا بدلہ بعد میں لیں گے، مگر انہوں نے نہ صرف پانڈیا کو ٹیم میں رکھا بلکہ آج اہم ترین فائنل میں انہیں فیصلہ کن آخری اوور دے کر یہ ثابت بھی کیا کہ ٹیم سے بڑھ کر کچھ اہم نہیں۔
یہ لمحہ ویرات کوہلی اور روہت شرما کے لیے ہمیشہ یاد رہے گا کہ ویرات کوہلی ٹی20 کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرچکے جبکہ روہت شرما کا بھی یہ آخری ٹی20 ورلڈ کپ تھا۔
ویسے یہ دونوں کتنے بڑے کھلاڑی ہیں انہوں نے جاتے جاتے بھی بتایا۔ پورے ٹورنامنٹ میں روہت شرما کا بلا چلتا رہا اور بھارتی ٹیم کامیابی حاصل کرتی رہی، فائنل آیا تو شرما جلدی آؤٹ ہوگئے مگر پورے ٹورنامنٹ میں ناکام رہنے والے کوہلی چھا گئے اور 76 رنز ہی اہم ترین اننگ کھیلی اور میچ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے۔
ایک اہم بات یہ کہ کسی بھی ٹیم کو جیت کے لیے کتنی سنجیدگی دکھانی چاہیے یہ آج بھارتی ٹیم نے دکھایا اور کوئی جیت کیسے جیتی ہوئی باری کسی کو تحفے میں دے سکتی ہے یہ ہمیں جنوبی افریقہ نے بتایا۔
آخر میں جنوبی افریقہ کو چوکر کہہ کر ہی مخاطب کرنا ہوگا کہ ناجانے انہیں عالمی چیمپیئن بننے کا اس سے اچھا موقع کب اور کیسے ملتا ہے، یہ کسی کو معلوم نہیں۔