وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ ٓئی ایم ایف سے نئے پروگرام کے لیے بڑی مثبت بات چیت چل رہی ہے، بہت جلد آئی ایم ایف سے یہ پروگرام طے ہوجائے گا جو کہ ایک بڑا فنڈنگ پروگرام ہوگا۔
مزید پڑھیں
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سمیت دیگر صوبوں کے وزرائے اعلی سے ٹیکس کے حوالے سے میری بات ہوچکی ہے، اس کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں، یہ ملکی استحکام کے لیے بہت ضروری ہے، صوبے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کے بارے میں بڑی باتیں ہوئی ہیں۔’ میں اس کے بارے میں بڑا واضح کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں سے میں نے شروع کیا تھا کہ اگر میکرواکنامک اسٹیبلٹی نہیں ہوگی تو یہ پروگرام ہم آگے لے کر جائیں گے، اب ہم یہ پروگرام آگے لے کر جارہے ہیں، ناقد بھی مانتے ہیں کہ اس پروگرام کے بغیر ہم آگے نہیں چل سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کے لیے بڑی مثبت بات چیت چل رہی ہے، توقع ہے کہ بہت جلد آئی ایم ایف سے یہ پروگرام طے ہوجائے گا، ہماری خواہش اور توقع یہی ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو۔
صحافی نے وزیر خزانہ سے سوال کیا گیا کہ کیا آئی ایم ایف حکومتی اقدامات سے مطمئن ہے اور کیا آنے والے دنوں میں عوام کو کوئی ریلیف ملے گا، جواب میں وزیرخزانہ نے کہا کہ وزیراعظم نے بھی کہا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف پروگرام کو آگے لے کر جانا ہے، تاکہ ہماری کرنسی، زرمبادلہ کے ذخائر بہتر ہوں۔
یہ بھی پڑھیں : کیا نان فائلرز کو بیرون ملک سفر سے قبل ٹیکس گوشوارے جمع کرانے میں مہلت دی جائے گی؟
محمد اورنگزیب نے کہا کہ بڑا آسان کام ہوتا ہے کہ اسٹیبلٹی چھوڑ کر گروتھ کی طرف چلے جائیں، گروتھ تو آپ کردیتے ہیں لیکن 3 سے 4 مہینوں میں ڈالر ختم ہوجاتے ہیں، اور آپ کو پھر آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، اس قسم کی پالیسی سے ہمیں گریز کرنا چاہیے کیوں کہ کوئی بھی اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
’جہاں تک عوام کی پریشانی کی بات ہے، میں بالکل بات سمجھتا ہوں، مختلف سیکٹرز پر جو ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، اس سے عوام دباؤ میں ہیں، لیکن ہم نے اس کا تدارک بھی کرنا ہے، اگر ہم ایکسپورٹر کمیونٹی کو ٹیکس نیٹ میں لے آئے ہیں تو ہم ان کے بقایا جات دے پائیں گے، اس کا آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔
ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے
انہوں نے کہا کہ میکرو استحکام پر بہت باتیں ہوچکی ہیں، سمجھنا چاہیے کہ میکرو استحکام ہمیں کیوں چاہیے، ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے، مہنگائی 38 فیصد سے 12 فیصد پر آگئی ہے، ملک میں سرمایہ کاری سے متعلق بات ہوئی ہے، پاکستان کے زرمبادلہ 9 بلین ڈالر کے ہیں، حکومتی اقدامات سے معیشت میں نمایات بہتری آئی، سب لوگ حقائق اور اعداد و شمار جانتے ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ عالمی بینک نے داسو پراجیکٹ کے لیے ایک ارب ڈالر کی منظوری دی ہے، انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) نے پی ٹی سی ایل کے لیے 400 ملین ڈالر منظور کیے ہیں، یہ رقم اگلے مالی سال میں آجائے گی، ایف بی آر نے 9.3 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولیاں کرلیں، ٹیکس وصولیوں میں گروتھ 30 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں : پاکستان واحد ملک جہاں نان فائلر کی کیٹیگری موجود، ٹیکس وصولی کا ہدف حاصل کرلیں گے، وزیر خزانہ
وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ کے جو اصول میں نے بتائے اس میں 3 چیزیں ہیں کہ ایک تو ہم اگلے 3 سال میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کو 13 فیصد پر لے جانا چاہتے ہیں اسی طرح ایل این جی، پاور سیکٹر ، پیٹرولیم اصلاحات انتہائی اہم ہیں، 10 کھرب روپے بہت ہیں اگر اس قسم کی لیکیج ملک میں نہ ہورہی ہو تو۔
ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے کرپشن کی روک تھام
محمد اورنگزیب نے کہا کہ جو کام ہمارا کرنے کا ہے کہ لیکجز کو، کرپشن کو، چوری کو کیسے بند کرنا ہے تو اس معاملے پر ٹھوس اقدامات لیے جارہے ہیں ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے، اس کا مقصد یہ ہے اب لوگ موبائل ایپ پر سب کام ہورہا ہے، یہی مقصد ہے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن کا کہ جتنے کم لوگ اس عمل میں شامل ہوں گے اتنی ہی کرپشن کم ہوگی، یف بی آر حکام اور ٹیکس دہندہ گان دونوں چوری میں ملوث ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے معاشی استحکام سےغیرملکی اداروں کا اعتماد بحال ہوا، معاشی بہتری کواب پائیدارمعاشی استحکام کی طرف لےجاناہے، مجھے نان فائلرز کی اصطلاح سمجھ نہیں آتی، اپنے اقدامات سے نان فائلر کی اصطلاح ہی ختم کردیں گے۔
تنخواہ دار طبقے کو ریلیف جلد ملے گا
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھا ہے، صورتحال بہتر ہوتے ہی تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دیں گے، پینشن کے معاملے کو قانونی تناظر میں دیکھیں گے۔
صوبے اپنے اخراجات خود برداشت کریں
وزیر خزانہ کا کہنا تھا صوبوں سے ریونیو اور اخراجات پر مشاورت شروع کی ہے، صوبوں کو کہہ رہے ہیں کہ اپنے اخراجات خود اٹھائیں، ایسے منصوبے جو صرف صوبوں کے ہیں وہ صوبے ہی اپنے سالانہ پلان میں لے کر آئیں۔