وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے 28 جون جمعہ کو صوبائی اسمبلی کے بجٹ سیشن میں ایک طویل خطاب کیا اور اپنی 100 دن کی کارگردگی ایوان میں پیش کی۔ مریم نواز کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے مسلسل احتجاج اور اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کیا۔
مزید پڑھیں
وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریر کے دوران اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کے احتجاج کو روکنے کی پوری کوشش بھی کی لیکن اپوزیشن کا احتجاج اور شدید نعری بازی بدستور جاری رہی۔ وزیر اعلیٰ نے بھی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن اراکین نے ایک بھی نہ سنی۔اس روز اپوزیشن اراکین کو سینیٹر علامہ ناصر عباس کی طرف سے دوپہر کا کھانا بھی پنجاب اسمبلی میں ہی دیا گیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جیسے ہی تقریر ختم ہوئی تو سیکریٹری پنجاب اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر کو یہ اطلاع ملی کہ 11 اپوزیشن اراکین کی وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریر کے دوران شدید احتجاج اور اسپیکر صوبائی اسمبلی کے ڈائس کے گھیراؤ کے الزام میں رکنیت معطل کر دی گئی ہے۔
اپوزیشن چیمبر کو تالے لگا دیے گئے
اطلاع ملنے پر ان تمام اپوزیشن اراکین اسمبلی نے اس معاملے پر بات چیت کے لیے اسپیکر کے پاس جانے کی کوشش کی لیکن اس سے قبل ہی صوبائی اسمبلی میں موجود اپوزیشن چیمبر کو بھی تالے لگا دیے گئے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے بتایا کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی اسمبلی میں اپوزیشن کے چیمبر کو تالے لگائے گئے، ہمارا جرم یہ ہے کہ ہم نے وزیراعلیٰ پنجاب کے سامنے ایوان کے اندر احتجاج کیا۔
احتجاج کرنا اپوزیشن کا جمہوری حق ہے، احمد خان بھچر
انہوں نے کہا کہ اس طرح کا احتجاج ہمیشہ اپوزیشن ایوان کے اندر ہی کرتی رہی ہے، بجٹ ہو یا کوئی اور عوامی مفاد کا معاملہ، اپوزیشن حکومت کی مسائل کی جانب توجہ دلانے کے لیے احتجاج بھی کرتی ہے اور نعرے بازی بھی کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ احتجاج کرنے کے جرم میں اپوزیشن اراکین کی رکنیت معطل کر دی گئی اور چیمبر کو تالے لگا دیے گئے، اپوزیشن کا سٹاف واپس بلالیا گیا اور یہ سب کچھ میڈیا کے ذریعے عوام نے بھی دیکھا۔
انہوں نے کہا کہ اس سے اگلے روز ہمارے ممبران کو اسمبلی احاطے میں داخل ہونے سے روکا گیا اور ان کے لیے قیدیوں کی وین بلائی گئی۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی وزیراعلیٰ پنجاب کے کہنے پر اپوزیشن کے ساتھ اس طرح کا رویہ اختیار کر رہے ہیں، ہمارے 11 ارکان کی بجائے تمام 107 ارکین کی رکنیت معطل کر دیں۔
اب اسٹاف اور سیکیورٹی واپس نہیں لوں گا
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر نے مزید کہا کہ جو اسٹاف اور گاڑی مجھے دی گئی تھی وہ میں اب واپس نہیں لوں گا، مجھے دی گئی سہولیات اسمبلی رولز اور قوانین کے مطابق ہیں، اپوزیشن لیڈر کے عہدے کی مراعات ایک سینیئر وزیرکے برابر ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ مجھے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی ون )کا چیئرمین کیوں بنایا گیا ہے تو یہ عہدہ بھی واپس لے لیں، لیکن ہم عوامی مفاد میں ایوان کے اندر اور باہر احتجاج، نعرے بازی سے باز نہیں آئیں گے کیوں کہ یہ ہمارا جمہوری حق ہے اور اسے ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔
اس تمام تر صورت حال پر وی نیوز نے حکومتی مؤقف لینے کے لیے صوبائی ترجمان اور وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر حکومت کوئی جواب نہیں دے سکتی، اس کا جواب سیکریٹری صوبائی اسمبلی یا خود اسپیکر پنجاب اسمبلی ہی دے سکتے ہیں۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی توانہوں نے بھی اس معاملے پر کوئی مؤقف دینے سے انکار کر دیا۔