موت کا فرشتہ تازہ ترین احکامات لے کر سیارہ زمین کی جانب گامزن تھا جبھی راستے میں نیکی کے فرشتے(صحافی) نے اسے روک کر سوال کیا!
اتنی تیزی میں کہاں جا رہے ہیں؟
مجھے پاک لینڈ نامی بستی اُلٹنے کا حکم ملا ہے، موت کے فرشتے نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ نیکی کا فرشتہ (صحافی) بولا، اُس بستی کو واقعی الٹ دینا چاہیے کیونکہ وہاں پوری قوم جاہل ہے۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ اُن میں ساحل عدیم اور خلیل الرحمن قمر نامی دو بڑے علماء بھی ہیں۔ کیا آپ ان کا لحاظ نہیں کریں گے؟
جس پر موت کےفرشتے نے جواب دیا۔ ‘انہی دو علماء کی وجہ سے تو یہ بستی الٹنے کا حکم ملا ہے’۔
صحافی: پاک لینڈ کی سرکاری کتابوں کے مطابق تو وہ بے شعور لوگوں میں شعوربانٹتے ہیں، جاہلوں کو تعلیم اور طاغوت کے معنی نہ جاننے والوں کو تہذیب سکھاتے ہیں۔
موت کا فرشتہ(طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ): تمہارے خیال میں کیا پاک لینڈ کی پچانوے فیصد خواتین جاہل ہیں؟
صحافی: صرف خواتین کیوں؟ وہاں کے مرد بھی ایسے ہی ہیں۔ بلکہ، میرے خیال میں تو یہ 2 نمونے ہیں اور کچھ ان جیسے دوسرے ‘پڑھے لکھے’ باقی تو سارے کا سارا پنڈ ہی جاہل ہے۔
موت کا فرشتہ: تمہیں جاہل اور عالم میں فرق معلوم ہے؟
صحافی: عالم وہ ہیں جو باقاعدگی سے اسکرپٹ لکھتے ہیں۔ پھر اس پر فلم بنتی ہے جس کی ریلیز کے بعد کروڑوں جاہل اس کے ہر ایک کردار پر بحث کرتے ہیں۔
موت کا فرشتہ: اتنے باخبر ہو تو بتاؤ آخری فلم کون سی ریلیز ہوئی ہے؟
صحافی: کچھ برس پہلے تو ‘جہنم’ نامی فلم ریلیز ہوئی تھی۔ تازہ فلم کون سی ہے، نہیں معلوم۔ ۔
موت کا فرشتہ: فلم جہنم کچھ برس تو نہیں، کئی دہائیوں پہلے ریلیز ہوئی تھی۔ تماشائی اسے دیکھ دیکھ کر اُکتا جاتے ہیں اس لیے ہر تھوڑے عرصے بعد ایک نیا ٹریلر نکالا جاتا ہے۔ جب لوگ فلم دیکھنے پہنچتے ہیں تو پھٹے(اسکرین) پر وہی پرانی فلم کچھ نئے سین ڈال کر چڑھا دی جاتی ہے۔ اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا ہے کہ فلم جہنم کا نام بدل کر اسے جہالت اور طاغوت کے نام سے ریلیز کیا گیا ہے۔ اس کے ٹریلر میں 2 خواتین مخالف علماء جو اسکرپٹ رائٹرز بھی ہیں، انہوں نے ولن کا کردار کرتے ہوئے عورتوں کو جاہلیت کا طعنہ دیا ہے۔ اب پاک لینڈ کے سبھی جاہل آپس میں لڑ رہے ہیں اور ان دونوں کی چاندی لگی پڑی ہے۔
صحافی: جہالت فلم میں قابل اعتراض کیا ہے، جس پر تم بستی اُلٹنے چلے؟
موت کا فرشتہ: اعتراض فلم پر نہیں، پاک لینڈ والوں پر ہے جو ایسے ہیروں کی ناقدری کرتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ کون سی قوم ہے جس میں قاسم علی شاہ، جاوید چوہدری، راجہ ضیاء الحق(یوتھ کلب)، خلیل الرحمن قمر، ساحل عدیم اوریا مقبول جان اور علامہ خادم رضوی وغیرہ جیسے علماء پیدا ہوئے ہوں؟ کیا ان میں سے ہر ایک نے مقدور بھر کوشش نہیں کی کہ وہ لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھے۔ انہیں یہ یاد ہی نہ رہے کہ اگلے دن انہوں نے بجلی کا بل بھی بھرنا ہے۔ کیا ان کی اصلاحِ احوال کے لیے ڈی چوک، فیض آباد اورانصاف کی عدالتوں میں فلم اسکریننگ نہیں کی گئی؟ تاکہ وہ دنیا کی بے ثباتی اور سیاسی، سماجی و معاشی گمراہیوں سے بچ کر ساری توجہ اور توقع آخرت پر مرکوز رکھیں۔
صحافی: یعنی یہ سب جھگڑے پہلے سے طے شدہ ہوتے ہیں؟
موت کا فرشتہ: ارے او سادے فرشتے!
کیا آج تک کوئی فلم یا اس کا ٹریلر اسکرپٹ کے بغیر بھی آیا ہے؟ کیا پاک لینڈ کسی اسکرپٹ کے بغیر چل رہا ہے؟ کیا جنگیں کسی اسکرپٹ کے بغیر لڑی جاتی ہیں؟ کیا حکومتیں کسی اسکرپٹ کی محتاج نہیں ہوتیں۔ کیا جاہل لوگوں کو اسکرپٹ کے کرداروں کے بغیر مطمئن کیا جا سکتا ہے؟
صحافی: نہیں تو۔ ۔ لیکن کیا ایسی فلمیں یہی دو رائٹرز نکالتے ہیں کیا؟
موت کا فرشتہ: نہیں، یہ دو تو صرف نمونے ہیں۔ اصل کارروائی تو اُس پروڈکشن ہاؤس کی ہے جس نے جہنم نامی فلم تخلیق کی تھی اور اب ہر تھوڑے عرصے بعد اس پکچر کو اسکرین پر برقرار رکھنے کے لیے کوئی نیا تماشہ رچایا جاتا ہے۔
صحافی: اچھا جو جاہل مرد اور خواتین ہیں، انہیں کیا مشورہ دینا چاہو گے؟
موت کا فرشتہ: جاہلوں کو چاہیے کہ ایسے کسی بھی ‘پڑنے لکھنے ‘ والے کو دیکھیں تو اس کی قدر کرتے ہوئے، دور سے سلام کریں۔ کسی پروگرام میں ان کی نحوست محسوس کریں تو بہتر ہے اس کا بائیکاٹ کریں۔ غیرت مند اور جاہل مرد بھی ان کی نشست میں مت بیٹھیں۔ جن کو گفتگو کے آداب نہیں وہ کسی بستی میں علم بیچیں گے تو اسے تباہ ہی کیا جائے گا۔ کافی وقت ہو گیا، میں نکلتا ہوں کیونکہ پاک لینڈ کے معاملات ہاتھ سے نکلے جا رہے ہیں۔ ۔
صحافی: یہ تو بتاتے جایئے کہ آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
موت کا فرشتہ: جس کے پاس اسکرپٹ ہے، اُسی کو اگلا لائحہ عمل معلوم ہوگا۔ ۔
صحافی: آپ کے پاس کیا ہے؟
موت کا فرشتہ: نو کمنٹس۔ ۔