عبداللہ حسین، الٹے پھر آئے’درِ دوست‘ اگر وا نہ ہوا

جمعرات 4 جولائی 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عبداللہ حسین کی شخصیت ان کے فن کی طرح خالص اور منفرد تھی۔ ان کی شخصیت میں ایک خاص قسم کا طلسم تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک درویشی اور بے نیازی بھی تھی جو کہیں سے طاری کی ہوئی نہیں لگتی تھی۔ امجد اسلام امجد صاحب کے ساتھ ان کا دیرینہ تعلق رہا۔ ہمیں امجد صاحب کے پاس بیٹھنے کا کئی بار موقع ملا۔ امجد صاحب دوستوں کو یاد کرتے تھے اور ان کے واقعات اس خوبصورتی سے بیان کرتے تھے کہ دل پر نقش ہو جاتے تھے۔

ایک مرتبہ ایسی ہی ایک محفل میں عبداللہ حسین کا ذکر چھڑ گیا۔ بتانے لگے کہ ان کا گھر ہم سےتھوڑی دور اسی گلی میں تھا۔ شروع شروع میں جب وہ یہاں شفٹ ہوئے تو ایک دن ملاقات کا وقت طے ہوا اور میں نے بتایا کہ آپ کے گھر سے بیسواں گھر ہمارا ہے۔ کہنے لگے ٹھیک ہے آ جاؤں گا۔ جب وقت مقررہ پر تشریف نہ لائے تو میں نے کال کر کے پوچھا کہ خیریت تو ہے کیوں نہیں آئے؟ تو بتانے لگے کہ میں اپنے گھر سے گن کر بیسویں گھرتک پہنچا، لیکن وہ تمھارا گھر نہیں تھا، کسی اور کا تھا، اس پر کسی اور کا نام لکھا تھا، سو میں واپس لوٹ آیا۔ امجد صاحب کہتے ہیں میں نے کہا میرا گھر انیسواں یا اکیسواں بھی ہو سکتا تھا، گھر کا نمبر توآپ کو بتایا تھا، تو کہنے لگے، بس میں لوٹ آیا۔ توایسے تھے عبداللہ حسین۔

وہ جو غالب نے کہا تھا، ’ الٹے پھر آئے درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا‘ توعبداللہ حسین دوست کے بتائے ہوئے پتے پراس کے گھر پہنچے اوردائیں بائیں سے پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی اور لوٹ آئے۔ یہ درویشی و بے نیازی تھی یا کیا تھا لیکن عبداللہ حسین ایسے ہی تھے۔ ان کی انگریزی زبان پر دسترس کے بھی لوگ معترف تھے۔ ایک تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انگریزی اچھی اس لیے ہوئی کہ والد اس پر بہت زور دیتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ انگریزی پڑھو لو، ورنہ نیکر پہن کر ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچو گے، چائے بیچنے کی تو خیر تھی لیکن لمبی لمبی ٹانگوں کے ساتھ نیکر پہننے کے خوف نے انگریزی پر توجہ دینے پر آمادہ کیا۔

عبداللہ حسین گجرات میں پلے بڑھے اور وہیں تعلیم حاصل کی اور پھر سیمینٹ فیکٹریوں میں ملازمت کے سلسلے میں ڈنڈوت اور داؤد خیل رہے۔ اسی دوران ایک فیلو شپ پہ کیمیکل انجینئرنگ کرنے کے لیے کینیڈا چلے گئے۔ واپس آکر ٹیکسلا کے پاس ایک اور سیمینٹ فیکٹری میں کچھ عرصہ ملازمت کی۔ اس کے بعد انگلستان گئے اور تقریباََ 22 برس تک وہیں رہے۔ عبداللہ حسین انگریزی ادب سے متاثر تھے، بعد میں انھوں نے روسی اور فرانسیسی ادب کا مطالعہ بھی کیا۔

عبداللہ حسین کے ناول ‘اداس نسلیں’ کو اردو کا شاہکار ناول قرار دیا جاتا ہے۔ اس ناول سے قبل ان کی کوئی تحریر کہیں شائع نہیں ہوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ عبداللہ حسین نے اپنے ناول کا مسودہ نیا ادارہ لاہور کے چودھری نذیر احمد کوبھیجا۔ محمد سلیم الرحمان صاحب نے حنیف رامے اور شیخ صلاح الدین سے ناول کی تعریف سنی تو چودھری نذیر احمد سے ناول کا مسودہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چودھری نذیر احمد نے کہا کہ اسے پڑھو اور اس کے بارے میں تعارفی کلمات لکھو۔ اس تعارف کو ‘سویرا’ میں شائع کیا جائے گا۔ چودھری نذیر احمد نے نے عبداللہ حسین کو مشورہ دیا کہ دو تین افسانے لکھ کر شائع کروائیے تا کہ آپ کا تعارف ہو۔ چنانچہ انھوں نے ایک افسانہ ‘ندی’ لکھا جو ‘سویرا’ میں شائع ہوا، اسے کافی پزیرائی حاصل ہوئی اور ساتھ ہی اس بات کا شہرہ بھی ہو گیا کہ اس مصنف کا ایک بہت شاندار ناول شائع ہونے جا رہا ہے۔

میرے نزدیک اداس نسلیں کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب اس کی لوکیل ہے۔ بقول مستنصر حسین تارڑ ’اداس نسلیں میں سارے کا سارا پسِ منظر پنجاب کا ہے، اور یہ پہلا ناول تھا جو اپنے ماحول کے حوالے سے تھا‘۔ عبداللہ حسین نے پنجاب کے اس خطے کو پہلی مرتبہ کسی ضخیم کہانی کا موضوع بنایا اور اس پر ایک شاندار کردار نگاری اور منظر نگاری سے عظیم ناول تخلیق کیا۔ اس ناول نے بعد میں اردو ناول نگاری پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔

عبداللہ حسین نے اس کے بعد ایک اور ناول ‘باگھ’ لکھا جو انھیں خود بہت پسند تھا۔ اس کے بعد ‘قید’ اور ‘رات’ ان کے 2 اور مختصر ناول شائع ہوئے۔ تاہم پانچواں ناول ‘نادار لوگ’ ضخیم تھا جس میں عبداللہ حسین کا فن عروج پر نظر آیا اور اس ناول کو دنیا بھر میں پزیرائی حاصل ہوئی۔ ان کے ناولوں کے مختلف زبانوں میں تراجم بھی کیے گئے، البتہ اداس نسلیں کا ترجمہ عبداللہ حسین نے ‘The weary Generations’ کے نام سے خود کیا۔ وہ زندگی کے آخری دنوں میں اپنے ایک اور ناول ‘آزاد لوگ’ پر کام کررہے تھے، جو ادھورا رہ گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp