خدارا۔۔ قومی تقاضے کو سمجھیں

بدھ 3 جولائی 2024
author image

محمد امین ڈھڈھی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ملک میں سیاسی استحکام، قیادت میں مفاہمت، دہشت گردی کا خاتمہ، اندرونی بیرونی سرمایہ کاری کو تحفظ اور اس کے لیے سازگار ماحول وقت کی اہم ضرورت اور قومی تقاضا ہے۔ کسی بھی مقبول اور مینڈیٹ کے حامل لیڈر کو دیوار سے لگانے کے مثبت نتائج نہیں ملتے۔ اس کا خمیازہ قوم ماضی میں بھگت چکی۔

قیام پاکستان کی جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار نبھانے والے بنگالیوں کے مینڈیٹ کا احترام کیا ہوتا تو آج بنگال پاکستان کا حصہ ہوتا۔ ادھر ہم ادھر تم کی بندر بانٹ ذہنیت کا مظاہرہ نہ ہوتا تو آج اکٹھے جی رہے ہوتے۔ اپنوں کی بات مان لیتے تو دشمن کو کھل کھیلنے کا موقع نہ ملتا۔ اس وقت بھی شملے اونچے رکھنے اور ذاتی انا کو تسکین درکار تھی۔ انائیں ٹھنڈی ہو گئیں لیکن ملک ٹوٹ گیا۔

آج بھی صورتحال ماضی کی طرح بگڑتی نظر آتی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عوامی حکومتوں کے باوجود ریاست سے بغاوت کی سی کیفیت ہے۔ دشمن چاہتا ہے ہم انا اور شملے اونچے رکھنے کی ضد پر اڑے رہیں، کیوں؟ اس لیے کہ کشیدہ ماحول دشمن کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ دہشت گردی کے لیے اسے وافر افرادی قوت ملتی ہے۔ کشیدگی میں چھوٹی چھوٹی رنجشیں دشمنیوں میں تبدیل ہوتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے زخموں کا علاج نہ کریں تو وہ ناسور بن جاتے ہیں۔

کل کے وزیراعظم اور آج کے مقبول لیڈر کو مقدمات میں الجھا کر کچھ عرصہ پس دیوار زنداں تو رکھا جا سکتا ہے لیکن عوام کے دلوں سے اس کی محبت اور تڑپ کو نکالا نہیں جا سکتا۔ اور جب کسی کی یاد باقی ہو تو اس زیادتی کے خلاف نفرت کا لاوا اندر ہی اندر سلگتا رہتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن یہ آتش فشاں پہاڑ کی طرح پھٹ پڑے اور اس کے راستے میں کوئی بھی نہ ٹھہر پائے۔

ہم تاریخ کے نازک دوراہے پر ہیں، چاروں طرف دشمنوں اوردشمن نما دوستوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ جن کو 40 سال پالا، مہمان نوازی کی، وہ آج سب سے بڑے دشمن ہیں جو گزند پہنچانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ ہمیں ایسے دشمنوں کو ایسا موقع دینا ہی نہیں چاہیے جس سے وہ فائدہ اٹھا کر ہمیں نقصان پہنچا سکیں۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ سرداروں کے برعکس بلوچ عوام قیام پاکستان سے ہی محرومیوں کا شکار ہیں۔ یہاں سے نکلی گیس سے اسلام آباد، لاہور، کراچی اور دیگر صوبوں کے عوام مستفید ہو رہے ہیں لیکن اصل وارث اس سے محروم ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ قدرتی وسائل پر پہلا حق اسی صوبے کی عوام کا ہوتا ہے جہاں سے وہ وسائل نکل رہے ہوں۔

اسی طرح کے پی کے میں مرکز سے مختلف حکومت کے باعث وزیراعلیٰ اور وفاق کے نمائندے گورنر کے مابین لفظی گولہ باری جاری ہے۔ مرکز اور صوبے کے مابین متصادم ماحول میں کوئی ترقی ہوگی نہ عوام کو ریلیف ملے گا۔ اس کے لیے تمام فریقوں کا ایک پیج پر ہونا اور ہم آہنگ سیاسی ماحول ضروری ہے۔ ورنہ اس کا فائدہ دہشتگرد گروہوں مثلاً ٹی ٹی پی وغیرہ کو ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز فورسز پر حملے اور آرمی چیک پوسٹوں سمیت پولیس تھانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

کیا یہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا؟ دشمن ہماری ذاتی لڑائی کیش کراتے رہیں گے؟ کیا کوئی فریق اناؤں کو ذبح کر کے اپنی ذات پر ملک کو ترجیح دے گا؟ تمام فریقین پر فرض ہے کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لیے لچک کا مظاہرہ کریں۔ صرف اپنے بیان کردہ حق پر ڈٹنے کی ضد اور طاقت کی بدمستی میں کیے اقدامات سے ملک کا نقصان ہو جائے گا۔ دونوں فریق تحمل کا مظاہرہ کریں۔ دونوں کے لیے قابل قبول شخصیات آگے بڑھیں اور اس صورتحال کے تدارک کے لیے کچھ کریں ورنہ ملک، اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کی انا کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔ جسے ہر صورت روکنا ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp