سپریم کورٹ نے بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی کو نظر انداز کرنے پر کس کی سرزنش کی؟

ہفتہ 6 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے ملک میں مون سون بارشوں کی وجہ سے اربن فلڈنگ سے متعلق وارننگ کے باوجود مالی سال 2024-25 کے صوبائی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فنڈز مختص کرنے یا مؤثر حکمت عملی تجویز کرنے میں ناکامی پر افسوس کا اظہار اور سرزنش کی ہے۔

جسٹس سید منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے یکم جولائی کو ماحولیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کے حوالہ سے کیس پر سماعت کی تھی۔ 5 جولائی کو جسٹس سید منصور علی شاہ نے اپنے 3 صفحات پر مشتمل حکم نامے میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے عوام کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے جو براہ راست لوگوں کے بنیادی حقوق کو متاثر کرتی ہے۔

مزید پڑھیں:سپریم کورٹ کا وفاقی حکومت کو 2 ہفتے میں موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی قائم کرنے کا حکم

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سنگین خطرات کے باوجود حالیہ صوبائی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی کے لیے کوئی ماحولیاتی فنڈ مختص نہیں کیا گیا اور نہ ہی کوئی مؤثر حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ فنڈز کی عدم دستیابی دوگنی تشویش کا باعث بن گئی ہے کیونکہ مون سون کی بارشیں قریب ہیں اور ملک ابھی تک سال 2022 کے تباہ کن سیلاب سے نہیں نکل سکا ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی ہدایت کی کہ عدالتی حکم وزیر اعظم شہباز شریف کے مطالعے کے لیے وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے سامنے پیش کیا جائے۔

سماعت کے دوران وزیراعظم کی کوآرڈینیٹر برائے موسمیاتی تبدیلی رومینہ خورشید عالم نے عدالت کو بتایا کہ کلائمیٹ چینج ایکٹ 2017 کی دفعہ 5 کے تحت قائم اتھارٹی کے ممبران کے لیے 5 عہدوں کا اشتہار دیا گیا ہے اور 752 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ درخواستوں پر سکروٹنی کا عمل جاری ہے اور جلد ہی 5 عہدوں پر تعیناتیاں کی جائیں گی۔

مزید پڑھیں:موسمیاتی تبدیلیاں کس طرح غریب کسانوں کے چولہے بجھا رہی ہیں؟

سپریم کورٹ نے ہدایت دی کہ تعیناتیوں کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے 15 دن میں مکمل کیا جائے اور باقاعدہ طور پر تشکیل دی گئی اتھارٹی کا نوٹیفکیشن سماعت کی اگلی تاریخ پر یا اس سے پہلے ریکارڈ پر رکھا جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا وزارت موسمیاتی تبدیلی کے پاس کوئی پالیسی ہے اور موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کیا مؤثر اقدامات کیے گئے ہیں تو کوئی ٹھوس جواب پیش نہیں کیا گیا، بتایا گیا تھا کہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے (صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز) ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔

عدالت نے پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے چیف سیکریٹریز کے دلائل سننے کے بعد مایوسی اور تشویش کا اظہار کیا کہ صوبائی حکومتیں واضح حکمت عملی، ایکشن پلان اور مناسب عملدرآمد کا حوالہ دیتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

مزید پڑھیں:موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے جامع اور موثر لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے، وزیراعظم شہباز شریف

چیف سیکریٹریز نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا کہ وہ اپنے متعلقہ صوبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے متعلقہ حکمت عملی اور ایکشن پلان سماعت کی اگلی تاریخ سے پہلے پیش کردیں گے۔ چیف سیکریٹریز سے پوچھا گیا کہ کیا حالیہ صوبائی بجٹ میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے کوئی خصوصی رقم مختص کی گئی ہے تو ان کا جواب نفی میں تھا۔

عدالت نے چیف سیکرٹرییز، رومینہ عالم اور متعلقہ افسران کو حکم دیا کہ وہ آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے پیش ہوں اور اپنی حکمت عملی اور اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کریں۔ کیس کی آئندہ سماعت 15 جولائی کو ہوگی۔

مزید پڑھیں:بلین ٹری منصوبے کے تحت لگائے گئے آدھے درخت ختم ہوچکے، جسٹس منصور علی شاہ

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 11 مئی کو وفاقی حکومت کو 2 ہفتے میں موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی قائم کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی قائم نہ ہونے سے عوام کے بنیادی حقوق پر سنگین اثرات ہوں گے۔

سپریم کورٹ نے موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کی 6 مئی 2024 کی سماعت کے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے قیام کے ساتھ حکومت اس کے لیے فنڈز کا بندوبست بھی کرے، موسمیاتی تبدیلی عوام کو درپیش سب سے سنگین خطرہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp