روس کو پاکستان سے سچا پیار ہوگیا ہے؟

اتوار 7 جولائی 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

روسی شہر خانتے مینسزک میں 18 اور 19 جنوری کو انٹرنیشنل آئی ٹی فورم منعقد ہوا۔ اس فورم سے خطاب کرتے ہوئے ماسکو میں پاکستانی سفیر خالد جمالی نے نارتھ ساؤتھ انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ کاریڈور میں شمولیت کا اعلان کیا۔ خالد جمالی کا کہنا تھا کے روسی صدر نے پچھلے سال اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں پاکستان کو شمولیت کی دعوت دی تھی جو ہم نے قبول کرلی ہے، اب شمولیت کے لیے متعلقہ پراسیس پر عمل شروع کردیا گیا ہے۔

ادھر زرا رکیں اور سوچیں کہ روسی صدر نے سال پہلے دعوت دی تھی، ہم وہ قوم جو کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں، پورا ایک سال لگا دیا یہ دعوت قبول کرنے میں، اس کا جواب بھی خالد جمالی نے ہی ماسکو میں دیا، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو شمولیت سے پہلے روس سے کچھ فیور چاہیے تھی۔

نارتھ ساؤتھ کاریڈور انڈیا کی بچپن کی خواہش اور خوشی ہے، یہ انڈیا کے شہر ممبئی کو ایران کے راستے روس کے شہر سینٹ پیٹرز برگ سے ملاتا ہے۔ پاکستان کو اس ملن میں بائی پاس کیا جاتا ہے، ہم سے ’بارو بار‘ ہی انڈیا خوشیاں منانے کے چکر میں تھا۔ پاکستان کی شمولیت کی داد یا رسید انڈیا نے یوں دی کہ انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت سے ہی گریز کیا، اپنی جگہ جے شنکر کو بھیج دیا۔

یہ وہی کانفرنس ہے جس میں وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف روسی صدر پوتن سے بھی ملے۔ صدر پوتن سے بھی پہلے یہ ان کو بائی پاس کرتے ہوئے فرط جذبات میں ان سے بھی آگے موجود سرگی لاوروف کو جپھا ڈال کر واپس آئے، خوشیاں ہی بہت چڑھی ہوئی ہوں گی، پائی جان! اب ان کو اگلی ملاقات میں سفارتی امور کا شارٹ کورس کرائیں گے پکا۔

دوحہ میں حال ہی میں افغانستان پر ایک کانفرنس ہوئی، اس کی سائیڈ لائین پر پاکستان، ازبکستان اور افغانستان نے 8 ارب ڈالر کے افغان ٹرانس ریلوے پراجیکٹ کو تیزی سے مکمل کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ ریلوے ٹریک ازمیر کو مزار شریف کابل کے راستے پشاور ایم ایل ون سے جوڑے گا، اب اس کی فنڈنگ کا بھی مڈل ایسٹ سے انتظام ہوگیا ہے۔

یہ ریلوے ٹریک چین، کرغیزستان، ازبکستان کے ٹریک سے بھی ملتا ہے جو یورپ تک فاصلے کو 900 کلومیٹر تک کم کرتا ہے۔ اس پس منظر میں روس کے سیزنڈ سفارتکار ضمیر قبولوف کا انڈین میڈیا سے ٹاکرا ہوگیا۔ انڈین میڈیا تک اطلاع پہنچ چکی تھی کہ پاکستان نارتھ ساؤتھ کاریڈور میں ہی شامل نہیں ہوا، روسی صدر پوتن پاکستان کو برکس اتحاد میں بھی شامل کرانے والے ہیں، برکس کا سربراہ اجلاس اس سال کازان روس میں ہونا ہے۔

انڈین میڈیا نے روسی ڈپلومیٹ کے ساتھ وہ کرنے کی کوشش کی جو پاکستانی آج کل اپنی حکومت کے ساتھ کرتے ہیں، انڈین میڈیا کے ساتھ پھر ضمیر قبولوف نے تقریباً ویسا حسن سلوک کیا جو سوشل میڈیا پر کپتان کے مداح اپنے مخالفین کے ساتھ کرتے ہیں۔ ان سے سوال پوچھا گیا کہ افغان طالبان پاکستان نے بنائے، قبولوف کا جواب تھا اگر آپ ٹھیک سے دیکھیں تو آپ کو دکھائی دے گا کہ پاکستان اور افغان طالبان میں کیا چل رہا ہے۔ پاکستان کا سب سے زیادہ اثر ہونے کے باوجود اسلام آباد اپنی منوا نہیں سکتا۔

اسٹریٹجک ڈیپتھ کی پالیسی پر قبولوف کا کہنا تھا کہ اب اس سے نکل آئیں، جیسی مداخلت آپ کرتے ہیں اتنی ہی پاکستان آپ کی کرتا ہے۔ ہم کامن سینس کو آواز دے رہے ہیں، ہم نے کتنے فورم بنائے ہیں بات کرنے کے لیے، چین بھی پاکستان کا ’آل ویدر‘ فرینڈ ہے، وہ بھی انہی کی سنتا ہے، اسی طرح کبھی افغان طالبان کو بھی بہت سادہ بات سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمیں سوچنا ہے کہ ہم پاکستان کو باہر رکھیں یا ساتھ شامل کریں، ہم نے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ساتھ رکھنے والی اس بات پر غور کریں، برکس میں پاکستان کی شمولیت کا سوچیں، برکس اتحاد کا فوکس اکنامک کوآپریشن، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، انرجی سیکیورٹی اور کلچرل ایکسچینج پر فوکس کرتا ہے۔ برکس کے سیاسی ڈومین میں تنازعات پر بات چیت، ڈپلومیٹک انگیجمنٹ، گلوبل ایشوز سیکیورٹی، کلائمیٹ چینج اور پائیدار ترقی پر مشترکہ پالیسی اپنانے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔

برکس ممبر ملکوں کی آبادی 3 ارب 64 کروڑ ہے، یہ دنیا کی کل آبادی کا تقریباً 46 فیصد ہے۔ برکس ملکوں کی مشترکہ اکانومی کا سائز 28.5 ٹریلین ہے۔ یہ گلوبل اکانومی کا 28 فیصد ہے۔ دنیا کی جی ڈی پی گروتھ میں برکس کا شیئر 45 فیصد ہے۔ کروڈ آئل کی پروڈکشن کا 45 فیصد برکس ملک پروڈیوس کرتے ہیں۔ پاکستان اس سب سے جڑنے جا رہا ہے۔ صدر پوتن اس کے لیے کوشش کررہے ہیں، سچے پیار والی بات ایسی بھی غلط نہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp