کیا حکومت بجلی بلنگ کا ناقص نظام ختم کر رہی ہے؟

بدھ 10 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

حکومت کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو پروٹیکٹڈ کٹیگری سے نکال باہر کرنے والا حسب شرح بلنگ نظام (پرو ریٹا سسٹم) ختم کرنے پر غور کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق بجلی صارفین کی بڑھتی ہوئی مایوسی کے پیش نظر حکومت پرو ریٹا سسٹم کو ختم کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے، یہ وہ نظام ہے جو ماہانہ کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو پروٹیکٹڈ کیٹیگری سے نکال دیتا ہے یا انہیں اگلے سلیب میں دھکیل دیتا ہے۔

حکومت نے میٹر ریڈنگ سسٹم کا جائزہ لینا شروع کر دیا ہے اور اس سلسلے میں چند ایک روز میں فیصلہ متوقع ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایک ماہ کے دوران 92 کروڑ 69 لاکھ بجلی یونٹس کی اوور بلنگ کا انکشاف

وزارت توانائی کے ایک سینیئر افسر نے اخبار کو بتایا کہ ہم اوور بلنگ سے متعلق صارفین کی شکایات پر غور کرتے ہوئے پرو ریٹا سسٹم کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس بات پر غور کیا جارہا ہے کہ آیا مارچ میں متعارف کروائے جانے والا یہ سسٹم صارفین کے لیے کس حد تک اچھا یا برا ثابت ہوا ہے۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سرکاری افسر نے مزید بتایا کہ اگر ہمیں یہ نظام مناسب نہیں لگا تو ہم یقینی طور پر اسے ختم کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ گھریلو پروٹیکٹڈ صارفین یعنی 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کا تناسب اپریل 2023 میں 69.38 فیصد تھا جو اس سال اپریل میں بڑھ کر 73.14 فیصد ہو گیا ہے، اسی طرح مئی 2023 میں ایسے صارفین کی شرح 68.84 فیصد تھی جو اس سال مئی میں بڑھ کر 73.59 فیصد ہو گئی، تاہم جون میں اس میں کمی دیکھی گئی جو 59.15 فیصد اور گزشتہ سال 60.42 فیصد رہی۔

افسر کا کہنا تھا کہ وہ صارفین جن کی بجلی کی کھپت کا حساب پرانے سسٹم میں 28 دن کے بلنگ سائیکل پر کیا جاتا ہے اب بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے ان کا شمار پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری میں نہیں ہوتا جب کہ جن کی بلنگ کا حساب 30 دن کے بلنگ سائیکل پر کیا گیا تھا اس میں کمی آئی ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ہم ان سب باتوں پر انحصار نہیں کر رہے بلکہ وہی فیصلہ کریں گے جو صارفین کے حق میں بہتر ہوگا خواہ اس سسٹم کو ختم ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

مزید پڑھیے: کیا آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بجلی بل ریلیف کی راہ میں حائل ہیں؟

واضح رہے کہ پرو ریٹا سسٹم کے تحت ماہانہ بلوں کا حساب 30 دن کی بجلی کی کھپت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر 30 دن کی کھپت کی مدت ہر مہینے کی 26 تاریخ کو ختم ہوتی ہو اور میٹر ریڈر کچھ دن پہلے ریڈنگ لیتا ہو تو ایسی صورت میں 24 اور 26 تاریخ کے درمیان استعمال شدہ یونٹس کی تعداد اوسط کی بنیاد پر شمار کی جائے گی۔

اگر 24 تاریخ کو یونٹس کی تعداد 180 ہے اور بل میں بیان کردہ یونٹس کی تعداد 210 ہے تو اس کا مطلب ہے کہ 30 یونٹس کے فرق کو پچھلے دنوں کی کھپت کی اوسط کی بنیاد پر شمار کیا گیا ہے۔ اسے ’پرو ریٹا‘ کہا جاتا ہے۔

لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی (لیسکو) کے ایک اہلکار نے بتایا کہ کل گھریلو صارفین کا صرف ایک فیصد (تقریباً 50 لاکھ) پروٹیکٹڈ صارفین کی کیٹیگری سے باہر نکلا۔

انہوں نے کہا کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے لوگ پچھلے سال جون کے مقابلے میں اس مرتبہ زیادہ بجلی استعمال کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپریل اور مئی میں پروٹیکٹڈ صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوا جب کہ اس سال جون میں اس میں ایک فیصد کمی واقع ہوئی۔

’سب فراڈ ہے‘

صارفین اس سسٹم کو فراڈ اور لائن لاسز (تجارتی اور تکنیکی دونوں) کو پورا کے لیے صارفین کو لوٹنے کا طریقہ قرار دے رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ میٹر ریڈرز کی جانب سے بلنگ سیکشنز کو مبینہ طور پر غلط ڈیٹا جمع کروایا گیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں وسیع پیمانے پر صارفین پروٹیکٹڈ کیٹیگری سے باہر نکل گئے ہیں۔

ایک صارف نے ڈان نے بتایا کہ میٹر ریڈرز نے 26 جون کو میٹر کی ریڈنگ لی لیکن دھوکا دہی سے کام لیتے ہوئے بلنگ کی تاریخ 24 ڈال دی یعنی انہوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ یہ ریڈنگ 28 دن کی ہے۔

مزید پڑھیے: حکومت بجلی و پیٹرول بم گرا رہی ہے، جماعت اسلامی عوام کو تنہا نہیں چھوڑے گی، حافظ نعیم الرحمان

صارف نے مزید بتایا کہ جب یہ ڈیٹا سسٹم کو بھیجا گیا تو خودکار نظام کے تحت اسے 30 دن کے بلنگ سائیکل پر کیا گیا اور اس دوران 2 دن یعنی 25 اور 26 جون کے اوسط یونٹ بل میں ڈالے گئے، اس طرح جن کی ریڈنگ 175 سے 180 سے تھوڑی زیادہ تھی، میٹر ریڈر کی ’بے ایمانی‘ کی وجہ سے وہ 200 سے بڑھ گئی اور لاکھوں صارفین پروٹیکٹڈ گیٹیگری سے باہر کردیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے ریڈنگ لیتے وقت میٹر ریڈر کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائی ہیں تاکہ یہ ثابت کرسکوں کہ کیسے اس نے غلط تاریخ بتائی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے شکایت بھی درج کروائی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp