وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ سوموٹو نوٹس کو فل کورٹ کی جانب لے جایا جائے تو معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو سکتا ہے، آئندہ کوئی بابا رحمتے جو ’زحمتے‘ بنے پیدا نہیں ہو گا۔ بابا رحمتے کے فیصلوں نے عدالت کی بھی کوئی عزت نہیں بڑھائی۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ سے انصاف چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ملک کی سیاست میں رواداری، آئین و قانون کی حکمرانی میں عدالت عظمٰی اپنا کردار ادا کرے۔ عدالت عظمٰی کے کردار ہی سے توازن آئے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ بدقسمتی سے پہلے ایسے فیصلے ہوتے رہے ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں عدالتوں پر شکوک و شبہات بڑھے، پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کا جو فیصلہ آیا ہے، اس فیصلے میں معزز ججز کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ تین، دو کا فیصلہ ہے اور ایک طرف کہا جا رہا ہے کہ چار، تین کا فیصلہ ہے یہ بھی معزز ججز ہی نے کہا ہے۔
رانا ثناء اللہ کے بقول’ کہا جا رہا ہے کہ یہ ججز کا اندرونی معاملہ ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ اندرونی معاملہ نہیں ہوتا۔ اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے کے اوپر ابہام دور ہونا چاہیے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ججز کی تقسیم پر پارلیمنٹ نے بروقت درست اقدام کیا۔ ازخود نوٹس کو پہلے 7 پھر 5 ججز نے سنا، ابہام دور کرنے کیلیے لارجر بینچ یا فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے۔ ہماری پہلے بھی یہ استدعا رہی ہے، آج بھی ہماری یہ استدعا ہے کہ فل کورٹ بینچ بنایا جائے۔
انہوں نے کہا کہ تمام صوبوں میں ایک ساتھ انتخابات ہونے چاہئیں، الگ الگ الیکشن کے نتائج کے ذمہ دار ہم نہیں ہوں گے، ہماری سمجھ کے مطابق الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ آگے بڑھانے کا اختیار ہونا چاہیے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے از خود نوٹس سے متعلق ایک ایکٹ پیش کیا گیا ہے، امید ہے آج اس پر پارلیمنٹ قانون سازی کر لے گی۔ اس ایکٹ میں یہ ضمانت ہو گی کہ آئندہ کوئی بابا رحمتے جو بعد میں ’بابا زحمتے‘ ثابت ہوتا ہے وہ دوبارہ نہ پیدا ہو سکے۔ اس بابا زحمتے کی لائی ہوئی زحمتیں آج تک قوم بھگت رہی ہے اور عدالت بھی بھگت رہی ہے۔ عدالت کے معاملات میں بھی بابا رحمتے کے اقدامات سے کوئی عزت افزائی نہیں ہوئی۔
رانا ثناء اللہ نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں قوم اور سیاسی جماعتوں کی رہنمائی کرے گی اور اس معاملے کو اس انداز میں سلجھائے گی کہ اس پر سارے فریق متفق ہوں۔ سپریم کورٹ کے پاس اخلاقی اتھارٹی ہے، فیصلے سے پہلے فیصلے پر شکوک و شبہات دور کیے جانے بہت ضروری ہیں۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ جب سپریم کورٹ کے ججز آمنے سامنے ہوں، جیسا کہ کل جو دو معزز جج صاحبان کا فیصلہ آیا ہے، اس کے بعد بھی اگر پارلیمنٹ اپنا کردار ادا نہیں کرتی تو پارلیمنٹ پھر ایسے جرم کی مرتکب ہو گی جسے تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما عبدالغفور حیدری نے کہا کہ جہاں کہیں بھی پارلیمنٹ کے قوانین میں، آئین میں کہیں سقم ہو تو اس سقم کو دور کرنا بھی پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے نہ کہ کسی جج کی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی 8 اکتوبر کی تاریخ کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل پر سپریم کورٹ کا فل بینچ بنایا جائے۔