روس سے جنگ کا امکان نہیں، پھر بھی نیٹو ممبر ملک جنگ کی تیاری کریں گے

جمعرات 11 جولائی 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نیٹو اتحاد کو قائم ہوئے 75 برس ہوگئے ہیں، اور اس کے 32 ممبر ہیں، ان میں سے 30 یورپی ملک ہیں، جبکہ 2 براعظم امریکا سے ہیں۔ اس اتحاد کے فاؤنڈنگ ممبر 12 تھے۔ نیٹو اتحاد کے 6 پارٹنرز بھی ہیں، جو یورپی یونین، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور یوکرین ہیں۔ یہ تمام 38 ملک واشنگٹن میں ہونے والے نیٹو کے 75 ویں اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔

فارن پالیسی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ نیٹو ممبر ملکوں سے کہا جائے گا کہ وہ نیٹو آرٹیکل فائیو لیول اٹیک سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں۔ نیٹو آفیشل کا کہنا ہے کہ ہم یہ آئیڈیا اجلاس میں رکھیں گے، ممبر ملکوں سے کہیں گے کہ وہ آرٹیکل فائیو لیول حملے کے دفاع کے لیے تیاری کریں، یہ تیاری اور پلاننگ سول اور ملٹری دونوں سطح پر کی جائے۔ جبکہ سول ملٹری پلاننگ آپس میں مربوط بھی ہونی چاہیے۔

نیٹو کا آرٹیکل فائیو اس اتحاد کا بنیادی آرٹیکل ہے، اس آرٹیکل کے مطابق ایک ممبر ملک پر حملہ سب ممبر ملکوں پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا حملہ ہونے کی صورت میں سب ملکوں کو جواب کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ آرٹیکل فائیو حملے کے لیے تیاری اور پلاننگ کا مشورہ یوکرین جنگ کے تناظر میں دیا جارہا ہے۔

اس تیاری کا مقصد بس اتنا ہے کہ نیٹو ممبر ملک اتنی صلاحیت رکھیں کہ اتحادی مدد آنے تک اپنا دفاع کرسکیں۔ نیٹو نے اب تک اپنا آرٹیکل فائیو تاریخ میں صرف ایک بار ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد ایکٹیو(انووک) کیا تھا۔

نیٹو ملک بائیڈن کی واپسی کی امید اور ٹرمپ کی واپسی کی تیاری کررہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن دوبارہ جیت جائیں یہ نیٹو ملکوں کی خواہش ہے۔ خواہش اور حقیقت میں فرق کو نیٹو ممبر جانتے ہیں، اس لیے وہ پوری طرح تیاری کررہے ہیں کہ اگر ٹرمپ امریکا کا صدر بن گیا تو ان کو کیا کرنا ہے۔ ٹرمپ اپنی پبلک اسٹیٹمنٹ میں کہہ چکا ہے کہ نیٹو مرچکا ہے، یوکرین کی جنگ کا خرچ یورپ خود اٹھائے۔

نیٹو کا مسئلہ صرف ٹرمپ ہی نہیں یوکرین بھی ہے اور اسپین بھی۔ یوکرین نیٹو میں شامل ہونا چاہتا ہے، یوکرین جب نیٹو میں شمولیت کا مطالبہ کرتا ہے تو امریکی صدر جوبائیڈن اور جرمن چانسلر اولاف شولس بے چین ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ نیٹو کا آرٹیکل فائیو ہی ہے۔ یوکرین کے حملے کا جواب پھر نیٹو کو دینا ہوگا۔ اس سے سب بچنا چاہتے ہیں، جبکہ یوکرین کے صدر زیلنسکی چاہتے ہیں کہ یوکرین کو نیٹو کا ممبر بنا لیا جائے۔

مسلہ یہیں تک نہیں ہے، اسپین کے وزیراعظم پیدرو سانچیز یوکرین کے حق میں سب سے زیادہ بولتے ہیں۔ نیٹو ممبر اسپین ہی دفاع پر سب سے کم خرچ کرتا ہے، نیٹو ممبر کو اپنی جی ڈی پی کا کم از کم 2 فیصد دفاع پر خرچ کرنا ہے۔ اسپین اس طرف بالکل نہیں آتا، یہ دیکھ کر ٹرمپ امریکی ووٹر کو سچا لگتا ہے کہ تم خود اپنے دفاع کے لیے کیا کرتے ہو۔

انڈین وزیراعظم جی سیون اجلاس کے بعد روسی صدر پوتن سے ملے ہیں۔ مودی نے کہا ہے کہ امن سب سے اہم ہے، مودی کے دورہ روس پر یوکرین کے صدر زیلنسکی بہت مشتعل لگتے ہیں، زیلنسکی نے کہا ہے کہ ’یہ امن کے لیے دھچکا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لیڈر دنیا کے سب سے خونی کریمنل سے ملا ہے‘۔ زیلنسکی کی باتوں کے جواب میں ہی مودی کو امن کے حق میں بیان دینے پڑے ہیں۔

ہمارے بھارت مہان کے ساتھ ایک ہاتھ اور بھی ہوگیا ہے۔ انڈین شہری روزگار کے چکر میں روس جا کر روس کی طرف سے جنگ میں بھی شامل ہورہے ہیں۔ ایک انڈین اس لڑائی میں کام بھی آیا۔ مودی نے دورہ ماسکو میں ان انڈین شہریوں کو واپس بھی طلب کیا ہے، اس پر ماسکو نے رضامندی بھی ظاہر کردی ہے۔

مودی کے دورے کا ایک دلچسپ اینگل اور بھی ہے، مودی روس کو بہت زیادہ چین کے کیمپ میں جانے سے بھی روکنے کی کوشش کررہے ہیں، جتنا چین سے قریب ہوں گے اتنا امریکا چین تناؤ کا حصہ بنیں گے، اتنا ہی انڈیا کے لیے سفارتی مشکل بڑھے گی۔ جتنا انڈیا کے قریب آئیں گے اتنا امریکا اور ویسٹ کے لیے ایک ونڈو کھلی رہے گی۔

یہ وہ مجبوری ہے جس میں مودی کو امن کے لیے کوشش کرنی ہے۔ یہ کوشش کرنا بنتا بھی ہے، مودی کا انڈیا ہی یوکرین جنگ کے بعد سستا روسی تیل حاصل کرکے کمائیاں کررہا ہے، جب یوکرین جنگ کی وجہ سے یورپ روس پر پابندیاں لگا رہا تھا۔ انرجی خریدنے سے انکاری تھا اور سردی سے ٹھٹھر رہا تھا، انڈیا سستا تیل خرید کر کمائیاں اور عیاشی کررہا تھا۔

پاکستان امریکا کا نان نیٹو اتحادی ہے، روس آج کل پاکستان پر مہربان ہے۔ روس کی خواہش پر پاکستان نارتھ ساؤتھ کاریڈور میں شمولیت کا فیصلہ کرچکا ہے۔ انڈیا کو پرائی لڑائی میں مالی فائدے ہوئے ہیں۔ اب یہ فائدے پاکستان تک آئیں، ویسٹ انڈیا کے بارے میں کچھ ایسا ویسا سوچے۔ مودی کو امن کی کوشش کرنی ہے۔ ورنہ نیٹو تو لڑائی کے لیے تیاری کرہی رہا ہے، اب امن کے لیے سنجیدہ کوشش اور خواہش ضروری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp