سپریم کورٹ کے فل بینچ نے پارلیمنٹ کی مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کی درخواست پر مقدمے کا محفوظ شدہ فیصلہ سنادیا ہے اس طرح مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کا حق قرار پائی ہیں۔
8 کے مقابلے میں 5 کے تناسب سے یہ اکثریتی فیصلہ جسٹس منصورعلی شاہ نے سنایا جس کے مطابق پی ٹی آئی کی مخصوص نشستیں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کو دینے اور پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے اسے برقرار رکھنے والے دونوں فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کا فیصلہ
اس اہم فیصلے کے سیاسی اثرات کیا ہونگے اور اس کے بعد کیا کچھ تبدیل ہو سکتا ہے اس بارے میں جاننے کے لیے وی نیوز نے قانونی ماہرین سے رابطہ کیا۔
ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ڈاکٹر جی ایم چوہدری نے مخصوص نشستوں کے فیصلے کے حوالے سے بتایا کہ یہ فیصلہ جس صورت میں بھی آتا اس سے ملکی سیاست ہل کر رہ جاتی۔
وہ کہتے ہیں اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کو کھوئی ہوئی پہچان واپس مل جائے گی جیسا کہ پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ آیا ہے تو اب اسے مخصوص نشستیں مل جائیں گی جس کے بعد پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بن جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی کو پشاور میں بھی سیٹیں ملیں گی تو یوں پی ٹی آئی نہ صرف قومی اسمبلی میں بلکہ سینیٹ میں بھی بڑی جماعت بن جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ اس فیصلے کا اثر یہ بھی ہو گا کہ صدارتی انتخابات کو بھی چیلنج کیا جاسکے گا کیونکہ اس وقت ایوان مکمل ہی نہیں تھا۔
مزید پڑھیے: مخصوص نشستیں: ہمیں ہمارا حق مل گیا، پی ٹی آئی کا مؤقف
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایوان میں 2 تہائی اکثریت بھی مکمل ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر زرداری نے کہا تھا کہ ہم حکومت بنا سکتے ہیں تو حکومت توڑ بھی سکتے ہیں یوں اگر اب پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی آپس میں مل جاتی ہیں تو مسلم لیگ نون کے لیے مشکل ہو جائے گی کیونکہ پی ٹی آئی نون لیگ کو ویسے بھی ناپسند کرتی ہے اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو پی ٹی آئی چونکہ بڑی جماعت بن جائے گی تو نون لیگ کو پی ٹی آئی کے مطالبات ماننے پڑیں گے کیونکہ حکومت کمزور ہو جائے گی۔
ایڈوکیٹ امان اللہ کنرانی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آج کا فیصلہ آئین اور قانون کے عین مطابق ہے۔ انہوں نے کہا کہ تکنیکی مسائل مختلف ہوسکتے ہیں لیکن عوام نے ایک سیاسی جماعت کو ووٹ دیا ہے اور سپریم کورٹ نے واضح طور پر ان تمام چیزوں کا جائزہ لیا اور اس کے بعد زمینی حقائق کے بعد یہ فیصلہ دیا ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ بڑی تعداد میں ووٹ لے کر منتخب ہونے والے آزاد امیدواروں کو نظر انداز نہیں کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب وہ تمام آزاد امیدوار پی ٹی آئی کے ساتھ شمار ہوں گے۔ اس لیے آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت جو مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں بنتی ہیں سپریم کورٹ نے ان کو دے دیں۔
ایڈوکیٹ امان اللہ کنرانی نے کہا کہ میرے خیال میں درست اور آئین کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے اندر خلفشار ہے وہ اب ختم ہو جائے گا اور اس سے ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام پیدا ہوگا اور اب ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ نون لیگ اور دیگر پارٹیوں میں چلے جانے والے بہت سے آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں یوں نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں سیٹیں کم ہو سکتی ہیں جس کا حکومت کو نقصان ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے: مبارک ہو بچپن کی محبت اور کرش جیت گیا، رہنما مسلم لیگ ن عظمیٰ بخاری کا سپریم کورٹ کے فیصلے پر ردعمل
ایڈوکیٹ حافظ احسان کھوکھر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس فیصلے نے اس چیز کو ثابت کیا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ یا سپریم کورٹ آزاد ہے کیونکہ گزشتہ 2 برسوں سے سپریم کورٹ اور ججز پر سوالیہ نشان اٹھ رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہے اور اب سیاسی جماعتوں کو سپریم کورٹ کو اپنی مرضی کے فیصلے پر کریڈیٹ دینے اور اپنی مرضی کے خلاف فیصلے کو غلط قرار دینے کی روایت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 51 اور 106، سیکشن 104، رول 92 اور 94 کے مطابق صرف اسی سیاسی جماعت کو مخصوص سیٹیں ملتی ہیں جو اس سارے عمل کا حصہ ہو یا کوالیفائی کرتی ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی نہ ہی اس کا حصہ تھی اور نہ ہی کوالیفائی کرتی ہے لیکن جو الیکشن کمیشن کے فیصلے کا تضاد تھا اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا ہے۔