جائیں تو کہاں جائیں، ایک طرف بھارتی مظالم اور دوسری طرف جدائی کا غم

ہفتہ 13 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 76 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ ان 76 برسوں میں بھارتی افواج نے اپنی غاصبانہ کارروائیوں اور ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھا۔ بھارتی افواج اب تک مقبوضہ کشمیر میں اڑھائی لاکھ کشمیریوں کو شہید اور 7 ہزار سے زائد کو ماورائے عدالت قتل کرچکی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک  لاکھ سے زائد بچے یتیم اور 11 ہزار سے زائد خواتین زیادتی کا شکار ہوئی ہیں۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دور اقتدار میں کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس سے قبل 90ء کی دہائی میں بھی کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تھے اور ہزاروں کشمیری خاندان بھارتی مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: زیادتی کی شکار 11 ہزار خواتین بھارتی بربریت کا کھلا ثبوت

مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ان خاندانوں کو حکومت پاکستان نے 13 مختلف  کیمپوں میں آباد کیا جو آج بھی قائم ہیں۔ انہی کیمپوں میں سے ایک کیمپ مظفرآباد کے نواحی علاقہ ٹھوٹھہ میں قائم ہے۔ اس کیمپ میں 470 خاندان آباد ہیں جن کے لیے حکومت پاکستان نے گھر تعمیر کیے ہیں۔ اس کمیپ میں مقبوضہ کشمیر کے اضلاع اسلام آباد، کپواڑہ اور بڈگام کے لوگ آباد ہیں۔

انزار احمد بٹ  کا خاندان بھی اسی کیمپ میں رہتا ہے۔ انزار بٹ اپنے بہن بھایئوں اور والدین کے ہمراہ 90ء کی دہائی میں آزاد کشمیر آئے تھے۔ وی نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ اس وقت آزاد کشمیر میں تقریباً ساڑھے 44 ہزار افراد پر مشتمل 8 ہزار کشمیری پناہ گزین خاندان آباد ہیں جو بھارتی فوج کے حملوں کے باعث ہجرت کرکے آزاد کشمیر آئے۔

انزار احمد  بٹ نے بتایا کہ ان کا گاؤں لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہے، جہاں بھارت نے انٹرنیٹ کی سہولت فراہم نہیں کی جس کی وجہ سے ان کے رشتہ داروں کو ان سے رابطہ کرنے کے لیے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے بھارت میں مودی کی حکومت قائم ہوئی ہے، اس وقت سے لائن آف کنٹرول کے پار رابطے میں بہت مشکلات ہیں۔ انذار بٹ نے کہا کہ کہ یہاں کے ماحول اور مقبوضہ کشمیر کے ماحول میں بہت فرق ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جدائی کے زخم: کشمیری پناہ گزین اپنے پیاروں سے دور عید کیسے مناتے ہیں؟

انزار بٹ کا کہنا تھا، ’یہاں قائم اس کیمپ میں بچے کھیلتے ہیں اور پارک میں مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، میرا بچپن مقبوضہ کشمیر میں گزرا ہے، ہم جب باہر نکلتے تھے تو انڈین آرمی ہمارے سامنے نوجوانوں کو اٹھا کر لے جاتی تھی اور خوف کی وجہ سے ہم سب گھروں میں چھپ جاتے تھے۔‘

انزر بٹ کی اہلیہ شگفتہ پروین کے خاندان کا تعلق بھی مقبوضہ کشمیر سے ہے لیکن شفگتہ کی پیدائش ہجرت کے بعد مظفرآباد میں ہوئی۔ ان کے بیشتر عزیز و اقارب بھی مقبوضہ کشمیر میں ہیں۔ ان کی بڑی بہن کی شادی بھی مقبوضہ کشمیر میں ہوئی ہے۔

‎شگفتہ پروین نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’میری بڑی بہن مقبوضہ کشمیر میں رہتی ہے، ان کے ساتھ ہمارا سوشل میڈیا کے ذریعے ہی رابطہ ہوتا ہے، جب وہاں حالات خراب ہوتے ہیں تو انٹرنیٹ سروس بند کردی جاتی ہے، جس کے بعد ان سے رابطہ نہیں ہو پاتا، انہوں نے کہا کہ جب ہمیں خبروں کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے حالات خراب ہیں تو ہماری پریشانی مزید  بڑھ جاتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: کشمیری لڑکیوں نے دقیانوسی تصورات ترک کرکے مارشل آرٹس کا جنون اپنا لیا

انہوں نے کہا کہ اگر مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کا موازنہ کیا جائے تو دونوں میں بہت واضح فرق موجود ہے، ہم یہاں اپنے گھروں میں محفوظ ہیں اور ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو اپنے گھروں میں رہنے کے باوجود ہر وقت ڈر اور خوف رہتا ہے۔‘

شگفتہ پروین نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی وقت حالات خراب ہوجاتے ہیں اور انہیں یہ ڈر رہتا ہے کہ انڈین آرمی ان کے عزیز و اقارب کے گھروں پر حملہ نہ کردے۔ ان کا کہنا ہے کہ خوشی یا غمی میں یا مذہبی تہواروں کے موقع پر انہیں اپنی بہن کی بہت یاد آتی ہے اور اگر فون پر بات ہوجائے تو تسلی ہوجاتی ہے تاہم ان سے اکثر ہی رابطہ نہیں ہوپاتا۔

‎شگفتہ پروین کا کہنا تھا، ’میری بہن وہاں پر اکیلی ہے، اگر اسے کوئی پریشانی ہو تو اسے وہاں سہارا دینے والا کوئی نہیں ہے، ہماری دعا ہے کہ کشمیر جلد آزاد ہو اور ہم سب مل جل کر ہنسی خوشی زندگی گزاریں اور یہ منقسم خاندان پھر سے آپس میں ایک ہوجائیں۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp