دنیا کے ایک چوتھائی لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں آبادی میں مزید اضافے کی گنجائش نہیں رہی۔ اقوام متحدہ نے بتایا ہے کہ سابقہ اندازے کے برعکس دنیا کی آبادی رواں صدی ہی میں اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ
اقوام متحدہ کے ادارہ معاشی و سماجی امور کی جاری کردہ نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2080 کی دہائی کے وسط میں دنیا کی آبادی 10 ارب 30 کروڑ ہو جائے گی، جبکہ صدی کے اختتام تک اس میں کمی کی توقع ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کی آبادی کیسے کنٹرول کی جاسکتی ہے؟
2100 میں دنیا کی آبادی کا حجم اس اندازے سے 6 فیصد (700 ملین) کم ہو گا جو ایک دہائی قبل لگایا گیا تھا۔
اوسط عمر میں نمایاں اضافہ
گزشتہ 3 دہائیوں میں شرح اموات کم ہوئی ہے اور اوسط عمر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 2050 کے اختتام تک دنیا بھر میں نصف اموات 80 برس کی عمر میں ہو رہی ہوں گی جبکہ 1995 میں یہ اوسط 63 فیصد تھی۔
بڑھوں کی تعداد بچوں سے زیادہ
رپورٹ کے مطابق، 2070 کے اختتام تک 65 برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد 18 سال سے کم عمر کے بچوں سے بڑھ جائے گی۔ اسی طرح 80 سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی تعداد ایک سال سے کم عمر کے بچوں سے زیادہ ہو گی۔
ماحول کے لیے پرامید رحجان
اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے معاشی و سماجی امور لی جنہوا نے کہا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران دنیا میں آبادی کی صورتحال میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آئی ہیں۔ بعض ممالک مں شرح پیدائش گزشتہ اندازوں کے مقابلے میں کم ہے۔ بعض ایسے علاقوں میں بھی یہ شرح تیزی سے کم ہو رہی ہے جہاں اس قبل یہ دوسرے خطوں کے مقابلے میں بلند رہتی تھی۔
ماحول کو ہونے والے نقصان میں بھی کمی آئے گی
انہوں نے اسے پُرامید علامت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح خرچ و صرف میں کمی کی بدولت ماحول کو ہونے والے نقصان میں بھی کمی آئے گی۔ تاہم آبادی میں اضافے کی رفتار کم ہونے کے باوجود ہر فرد کے ہاتھوں ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات کی شرح برقرار رہے گی جس میں کمی لانے کے اقدامات جاری رکھنا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ شہری آبادی والا ملک، آخر وجہ کیا ہے؟
شرح پیدائش میں کمی
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین سمیت دنیا کے بعض بڑے ممالک میں بچوں کی پیدائش میں کمی آئی ہے اور وہاں خواتین میں صرف ایک بچہ پیدا کرنے کا رحجان تقویت پکڑ رہا ہے۔
فی عورت بچوں کی شرح پیدائش میں کمی
دنیا کے نصف سے زیادہ ممالک میں فی عورت بچوں کی شرح 2.1 سے بھی کم رہ گئی ہے۔ مہاجرت کے بغیر طویل عرصہ تک آبادی کے حجم کو برقرار رکھنے کے لیے یہی شرح درکار ہوتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین، اٹلی، جمہوریہ کوریا اور سپین سمیت دنیا کے 20 فیصد ممالک میں فی خاتون بچوں کی شرح پیدائش 1.4 فیصد سے بھی کم رہ گئی ہے۔
گھٹتی بڑھتی آبادی، عالمگیر صورتحال
رواں سال تک 63 ممالک کی آبادی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے جہاں کا ماحول اس میں مزید اضافے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان ممالک میں چین، جرمنی، جاپان اور روس بھی شامل ہیں۔ آئندہ 3 دہائیوں میں ان ممالک کی آبادی میں 14 فیصد کمی کی توقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق، برازیل، ایران، ترکیہ اور ویت نام سمیت 48 ممالک کی آبادی 2025 اور 2054 کے مابین عروج پر پہنچ جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:دنیا کی آبادی کتنی ہوچکی، شرح پیدائش میں کون سے ممالک آگے ہیں؟
انڈیا، انڈونیشیا، نائجیریا، پاکستان اور امریکا سمیت 126 ممالک کی آبادی میں 2054 تک اضافہ ہوتا رہے گا اور وہاں صدی کے دوسرے نصف میں کسی وقت اس میں کمی متوقع ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس گروہ میں شامل نو ممالک ایسے ہیں جہاں 2054 تک آبادی میں تیزی سے اضافے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ ان ممالک میں وسطی افریقہ، جمہوریہ کانگو، نیجر، صومالیہ اور انگولا بھی شامل ہیں۔
قبل از وقت حمل کا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق، خاص طور پر کم آمدنی والے ممالک میں قبل از وقت حمل کا مسئلہ بھی آبادی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ رواں سال دنیا بھر میں 47 لاکھ بچے ایسی ماؤں نے جنم دیے جن کی عمر 18 سال سے کم تھی۔ اسی طرح 3 لاکھ 40 ہزار بچوں نے ایسی ماؤں کے ہاں جنم لیا جن کی عمر 15 سال سے کم تھی۔
یہ بھی پڑھیں:ملک میں 4 لاکھ کی آبادی کے لیے صرف ایک ماہر نفسیات موجود ہے، صدر پی اے ایم ایچ
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں اور نوعمر افراد خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم پر سرمایہ کاری کرنے اور شادی کی قانونی عمر میں اضافہ کرنے سے اس رحجان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس سے خواتین کی صحت، تعلیم اور افرادی قوت میں ان کی شمولیت سے متعلق صورتحال بھی بہتر ہو سکتی ہے اور آبادی میں اضافے کی رفتار کم کرنے اور پائیدار ترقی کے حصول میں بھی مدد ملے گی۔