ایڈیشنل سیشن جج افضل مجوکا نے عدت میں نکاح کیس میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو سنائی گئی 7، 7 سال قید کی سزا معطل کردی ہے۔ عدالت نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ہے، عدالت نے دونوں کی رہائی کی روبکار جاری کرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ اگر وہ کسی اور کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں رہا کیا جائے۔
رواں برس فروری میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد کے سینئر سول جج قدرت اللہ نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو دوران عدت نکاح کیس میں 7، 7 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
مزید پڑھیں:عدت کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزائیں کالعدم، رہائی کا حکم
مقدمے میں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پر الزام تھا کہ بشریٰ بی بی نے عدت کے دوران عمران خان سے نکاح کیا تھا۔ یہ مقدمہ بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے درج کرایا تھا۔
پی ٹی آئی نے سزاؤں کیخلاف اسلام آباد کی ضلعی عدالت سے رجوع کیا گیا تھا تاہم گزشتہ ماہ جون میں دورانِ عدت نکاح کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا معطلی کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے جرمانے سمیت 7 سال کی سزا برقرار رکھی تھی۔
کیس کب شروع ہوا؟
25 نومبر 2023 کو بشریٰ بی بی کے سابق شوہر خاور مانیکا نے اسلام آباد کی سیشن کورٹ کے سول حج قدرت اللہ کی عدالت میں پیش ہو کر شکایت درج کرائی تھی۔ درخواست 494/34 ، 496 سمیت دیگر دفعات کے تحت دائر کی گئی تھی۔ خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ بشریٰ بی بی اور بانی پی ٹی آئی کو طلب کرکے سخت سزا سنائی جائے۔
سول عدالت میں جمع کروائے گئے خاور مانیکا کے تحریری بیان کے مطابق بشریٰ بی بی کی بہن مریم نے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران بشریٰ کا عمران خان سے تعارف کروایا تھا۔ خاور مانیکا نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ عمران خان ’پیری مریدی‘ کی غرض سے ان کے گھر داخل ہوئے اور ان کی غیر موجودگی میں گھر آتے رہے تھے۔
مزید پڑھیں:نکاح، طلاق اور عدت پر بے جا گفتگو کسی صورت مناسب نہیں، اسلامی نظریاتی کونسل
ان کے مطابق اس وجہ سے ایک مرتبہ وہ عمران خان کو گھر سے بھی نکال چکے ہیں۔ انہوں نے دعوٰی کیا کہ عمران خان کے قریبی ساتھی اور سابق مشیر زلفی بخاری بھی عمران خان کے ساتھ ان کے گھر آتے رہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کا ٹیلیفون پر رابطہ رہتا تھا اور فون کی سِم بشریٰ بی بی کی دوست فرح گوگی نے فراہم کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس صورتحال سے تنگ آ کر انہوں نے 14 نومبر2017 کو اپنی اہلیہ کو طلاق دے دی تھی۔ خاور مانیکا نے درخواست میں مؤقف اپنایا، ’دوران عدت نکاح کا معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد دونوں نے مفتی سعید کے ذریعے فروری 2018 میں دوبارہ نکاح کیا جو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 496/ 496 بی کے تحت سنگین جرم ہے۔‘
خاور مانیکا نے بیان میں کہا تھا کہ وہ پہلے اس معاملے پر نہیں بولے کہ یہ گھر کی بات ہے لیکن باتیں منظر عام پر آنے کے بعد وہ قانونی چارہ جوئی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس 11 دسمبر کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف خاور مانیکا کی جانب سے دائر غیر شرعی نکاح کیس کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیں:عمران خان اور بشریٰ بی بی کو کیا جلدی تھی کہ عدت میں نکاح کیا؟ حقائق قوم کو بتائیں، خاور مانیکا
عمران خان اور بشریٰ بی بی کے دوران عدت نکاح کی خبر سب سے پہلے سینئر صحافی عمر چیمہ نے جنوری 2018 میں دی تھی۔ تاہم پی ٹی آئی نے اس خبر کی تردید کی تھی۔ بعدازاں فروری 2018 میں پی ٹی آئی کی جانب سے نکاح کی خبر جاری کی گئی تھی۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ 27 ستمبر 2018 کو بشریٰ بی بی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں عدت ختم ہونے سے قبل عمران خان سے شادی کرنے کی خبروں کی تردید کی تھی۔ بشریٰ بی بی کا کہنا تھا کہ طلاق ہونے کے بعد انہوں نے نہ صرف عدت پوری کی بلکہ 7 ماہ بعد تحریک انصاف کے سربراہ سے نکاح کیا تھا۔
16 جنوری کی سماعت میں کیا ہوا تھا؟
سینیئر سول جج قدرت اللہ نے 16 جنوری 2024 کو اس کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں کی تھی اور پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف فرد جرم پڑھ کر سنائی تھی۔
اس دوران عمران خان کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ عمران خان نے چارج شیٹ پر دستخط کیے لیکن انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔ فرد جرم سناتے ہوئے عدالت نے بشریٰ بی بی بی کی غیرموجودگی پر برہمی کا اظہار کیا جبکہ وکلا صفائی نے ان کی حاضری سے استثنا کی درخواست کی جو عدالت نے خارج کردی تھی۔
جج نے استفسار کیا کہ عدالت نے بشریٰ بی بی کو آج طلب کیا تھا، وہ کس کی اجازت سے کمرہ عدالت سے چلی گئیں۔ عدالت نے جیل انتظامیہ کو ہدایت کی کہ معلوم کریں کہ بشریٰ بی بی جیل میں کب داخل ہوئیں اور کب باہر گئیں۔ جیل انتظامیہ نے عدالت کو بتایا کہ بشریٰ بی بی ساڑھے 11 بجے جیل میں آئیں اور پونے 2 بجے واپس روانہ ہوئیں۔
مزید پڑھیں:عدت کیس: عمران خان اور بشریٰ بی بی کی سزا کیخلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی
15 جنوری کو عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے بھی غیر شرعی نکاح کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا تھا، بشریٰ بی بی کی درخواست پر 17 جنوری کو کیس فائل چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ارسال کردی گئی تھی۔
19 جنوری کو کیا ہوا؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کو بانی پی ٹی آئی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی عدت کے دوران نکاح کیس میں گواہان کے بیانات قلمبند کرنے سے روکتے ہوئے خاور مانیکا کو 25 جنوری کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔
بعد ازاں، اسی روز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے سینئر سول جج قدرت اللہ نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں مقدمے کی سماعت کی جس میں وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع سے متعلق آگاہ کیا اور مختصر فیصلہ جمع کرایا۔ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد کیس کی سماعت بغیر کارروائی 29 جنوری تک ملتوی کی تھی۔
25 جنوری کی سماعت میں کیا ہوا؟
دوسری جانب، اسلام آباد ہائیکورٹ نے بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی دوران عدت نکاح کیس کی شکایات خارج کرنے کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے کیس کے ٹرائل پر حکم امتناع میں 31 جنوری تک توسیع کی تھی۔
31 جنوری کو کیا ہوا؟
31 جنوری کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست گزار اور گواہوں کے بیانات پڑھ کر سنائے اور دلائل دیے کہ یہ کیس ان کے مؤکلان کی تذلیل کرنے کے لیے دائر کیا گیا اور سیاسی مقاصد کے لیے اسکینڈلائز کرنے کے لیے نوٹسز جاری کیے گئے۔
مزید پڑھیں:عدالتی تاریخ میں جمعے کے روز کون کون سے اہم فیصلے سنائے گئے؟
خاور مانیکا کے وکیل رضوان عباسی نے کہا کہ اگر پہلا نکاح درست تھا تو پھر دوسرا نکاح کیوں کیا گیا؟ گواہوں نے ٹرائل کورٹ میں بیان دیا کہ وہ دوسرے نکاح میں بھی موجود تھے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ اگر ٹرائل چلنا ہے تو پھر یہ کیسے ثابت ہوگا کہ یہ 39 دن ہیں یا 90 دن۔ وکیل رضوان عباسی نے جواب دیا کہ یہ شوہر اور پراسیکیوشن ثابت کریں گے، اِس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کون سے شوہر، پہلے یا بعد والے؟ رضوان عباسی نے جواب دیا کہ جس کے ساتھ وہ 28 سال رہیں وہی بتائیں گے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ فرض کریں کہ آپ نے ثابت کردیا تو پھر اس میں جرم کیا ہوگا۔ رضوان عباسی نے جواب دیا کہ اگر نکاح بے قاعدہ قرار پائے گا تو پھر وہ خلاف قانون ہوگا، یہ کہتے ہیں کہ اپریل 2017 میں خاور مانیکا نے زبانی طلاق دی جبکہ خاور مانیکا کے پاس اگست کے شمالی علاقوں کے ٹور کی تصاویر موجود ہیں۔ بعد ازاں، عدالت نے فریقین کے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا کو 3 فروری 2024 کو سنایا گیا تھا۔