آزاد کشمیر کے ضلع وادی نیلم میں ایک ماہ کے دوران ٹریفک حادثات میں 40 افراد جاں بحق جبکہ متعدد زخمی ہوئے، جس کے بعد ریاست میں ایک بار پھر روڈ انفراسٹرکچر اور محکمہ ٹرانسپورٹ کی کارکردگی کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے۔
وزیر ٹرانسپورٹ جاوید بٹ کے مطابق ان ٹریفک حادثات کا ذمہ دار محکمہ ٹرانسپورٹ کا عملہ ہے کیونکہ ان کی کوئی تربیت ہی نہیں کی جاتی۔
یہ بھی پڑھیں آزاد کشمیر: مسافر کوسٹر کو حادثہ، 9 افراد جاں بحق، 18 زخمی
جاوید بٹ نے کہاکہ مجھے نہیں لگتا کہ محکمے کے عملے کے پاس اسناد بھی اصلی ہوں، ان سے رپورٹ مانگی تھی کہ بتایا جائے آزاد کشمیر کے 10 اضلاع میں کتنی پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیاں چل رہی ہیں اور کتنے روٹ پرمٹ جاری ہوئے، مگر ابھی تک رپورٹ پیش نہیں کی گئی۔
انہوں نے کہاکہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے فٹنس آفیسر پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
جاوید بٹ نے کہاکہ گاڑی کی فٹنس روڈ پر چیک کی جاتی ہے پھر روٹ پرمٹ جاری ہوتا ہے، لیکن یہاں آفیسر 10 فٹ کے کمرے سے ہی گاڑی کی فٹنس کلیئر کردیتے ہیں، ایسے افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
تحقیق کے دوران کئی ایسے اہم مسائل سامنے آئے ہیں جو نظام کی کوتاہیوں، مقامی قوانین کے نفاذ میں غفلت، ناکافی منصوبہ بندی اور کرپشن کی نشاندہی کرتے ہیں۔
’گاڑیوں کی حالت اور اوور لوڈنگ‘
ڈرائیوروں نے مالی مجبوریوں کی وجہ سے 1990 ماڈل لوڈر گاڑیوں کو ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں تبدیل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ تبدیل شدہ گاڑیاں بھاری بوجھ تو برداشت کرسکتی ہیں لیکن بار بار مکینیکل خرابی ہوتی ہے جس کی وجہ سے گاڑی زیادہ محفوظ نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر میں اکثر سڑکیں غیر معیاری ہیں اور یہ بھی حادثات میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔
دوسری جانب آزاد کشمیر میں سڑکوں کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیداروں کا موقف ہے کہ سڑک کی تعمیر کے دوران مقامی لوگوں کی مزاحمت کی وجہ سے ڈیزائن میں نقائص اور تعمیراتی چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں مسافر جیپ دریائے نیلم میں گرنے سے 13 افراد ہلاک
ان کا کہنا ہے کہ بعض اوقات لوگ اپنی زمینوں سے سڑک نکالنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے سڑک کی تعمیر میں نقائص رہ جاتے ہیں۔
ریاست میں آئے روز ٹریفک حادثات کا معاملہ اتنا سادہ نہیں، خطے میں مختلف سطحوں پر حکمرانی اور جوابدہی کا واضح فقدان ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سڑکیں پہلے سے ارضیاتی یا حفاظتی جائزوں کے بغیر تعمیر کی جاتی ہیں، اور پہاڑی علاقوں میں فعال لینڈ سلائیڈز جیسے عوامل کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سڑکوں کی تعمیر، ان کی دیکھ بھال اور حفاظتی اقدامات کے لیے خطیر بجٹ مختص کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود سڑکوں کی غیرمعیاری تعمیر کے علاوہ دیکھ بھال اور حفاظتی اقدامات بھی نہیں کیے جاتے۔
ماہرین کے مطابق گاڑیوں کے حفاظتی معیار اور بوجھ کی حد کو نظر انداز کرنا اور پرانی یا تبدیل شدہ گاڑیوں کو استعمال کرنے کی اجازت دینے سے حادثات کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
’سڑکوں کی تعمیر میں کرپشن‘
آزاد کشمیر میں سڑکوں کی تعمیر کے لیے مختص کیے گئے فنڈز کا ایک بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سالانہ اربوں روپے مختص کیے جانے کے باوجود سڑکیں معیاری نہیں اور حالت ابتر ہے۔
سنہ 2016 سے گزشتہ مالی سال کے آخر تک سڑکوں کی تعمیر پر لگ بھگ 60 ارب روپے خرچ کیے گئے اور صرف رواں مالی سال میں سڑکوں کے لیے 15 ارب روپے مختص کیے گئے۔ اس چھوٹے سے خطے میں اتنی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بہت کم سڑکیں ہی معیاری نظر آتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں محفوظ ڈرائیونگ پر وی لاگز بنانے والے ٹریفک انسپیکٹر سوشل میڈیا پر وائرل
ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹھیکیدار زیادہ سے زیادہ منافع کے لیے غیر معیاری میٹریل استعمال کر تے ہیں اور یہ سب محکمے کے افسران کی ملی بھگت سے ہوتا ہے۔
وزرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ
آزاد کشمیر میں حالیہ حادثات کے بعد ٹرانسپورٹ اور مواصلات کے ذمہ دار وزرا کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے جو عوامی غم و غصے کی عکاسی کرتا ہے۔ ’محفوظ نقل و حمل کو یقینی بنانے کی ذمہ داری نہ صرف ڈرائیوروں اور ٹھیکیداروں پر عائد ہوتی ہے بلکہ ریگولیٹری اداروں اور پالیسی سازوں پر بھی عائد ہوتی ہے جو بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور حفاظت کے معیار کو تشکیل دیتے ہیں‘۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ جدید ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی جانی چاہیے اور نئی بسوں کی خریداری اور بین الاقوامی حفاظتی معیار کے مطابق سڑکیں تعمیر کی جانی چاہیے۔