’مجھے دھمکیاں ملتی ہیں لیکن میرا یقین ہے کہ موت کا وقت معین ہے اور جب آپ کی موت کا وقت آ جائے تو آپ کو مرنا ہوتا ہے۔‘
قندیل بلوچ کا کہا سچ ثابت ہوا اور اس کا وقت بھی 15 جولائی 2016 کو آ ہی گیا جب اسے سوتے ہوئے ابدی نیند سلادیا گیا تھا۔ قندیل کے بیہمانہ قتل سے 25 دن قبل کیا ہوا تھا؟
کراچی: سوموار 20 جون 2016
’آپ لوگوں کو پتا ہے کہ آج میں کس سے ملنے آئی ہوں۔‘ قندیل نے سوشل میڈیا پر اپنا ویڈیو کلپ اپ لوڈ کیا تھا جو چند گھنٹوں میں پوری دنیا میں وائرل ہوگیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے مذہبی ونگ کے سربراہ مفتی عبدالقوی سے اٹکھیلیاں کرتی ویڈیو اور مفتی صاحب کی قراقلی ٹوپی پہنے قندیل کی سیلفیوں نے میڈیا کا بازار گرم کردیا تھا۔
اسلام آباد: 22 جون 2016
کہنے والے کہتے ہیں کہ قندیل نے مفتی صاحب کو بے نقاب کردیا تھا، حالانکہ اس وقت مذہبی امور کے وفاقی وزیر سردار محمد یوسف نے سوشل میڈیا پر قندیل کے ساتھ تصاویر وائرل ہونے کے بعد مفتی عبدالقوی کی رویت ہلال کمیٹی کی رکنیت معطل کردی تھی۔ اُدھر قندیل ٹی وی شوز کے لیے ناگزیر ہوچکی تھی۔
مزید پڑھیں:عینی آپا تھیں تو پاکستانی
لاہور: 28 جون 2016
قندیل نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس میں کہا تھا:
قسم سے مفتی عبدالقوی سے ملاقات کے بعد مجھے اتنی دھمکیاں مل رہی ہیں، کہ میری زندگی سے سکون چلا گیا ہے، میری راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ میری ذاتی شناختی دستاویزات سوشل میڈیا پر ڈال دی گئی ہیں، کیا میں لاوارث ہوں۔ میری اور میرے خاندان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے۔ میں نے ڈی جی ایف آئی کو بھی درخواست دی ہے کہ میرے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کو کیسے اور کس نے سوشل میڈیا پر ڈالا؟
’یہ تماشا کب تک جاری رہے گا، کب تک مظلوم انسانیت کپڑے کے پھٹے ہوئے خیموں میں قید رہےگی۔ کب تک مجبور نسوانیت تحفظ کی نام نہاد چار دیواری میں شہوانیت کی شکار ہوتی رہے گی۔ کب تک غربت و بے چارگی سرمائے کے ہاتھوں فروخت ہوتی رہے گی، کب تک؟ (محبوس عورتیں از منٹو)
ملتان: 15 جولائی 2016
قندیل کو سوتے ہوئے گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیا۔ وہ اپنے والدین کے پاس ملتان آئی ہوئی تھی۔ اسی شام قندیل کے بھائی وسیم عظیم نے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے الزام لگایا کہ مقتولہ خاندان کی بدنامی کا سبب بن رہی تھی۔ ادھر قندیل کے والد عظیم بلوچ کا دعوٰی تھا کہ قندیل نہایت نرم گفتار، ملنسار تھی، قندیل کو مفتی عبدالقوی کے کہنے پر مارا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:قدرت اللہ شہاب کی چندراوتی
ایرانی مفکر علی شریعتی نے کہا تھا ’مجھے انتہائی دکھ ہوتا ہے ان عورتوں کو دیکھ کر جو اپنے اوپر لگا بدنامی کا دھبہ مٹانے کے لیے داڑھی نہیں رکھ سکتیں۔‘ برطانوی وزیرِاعظم ٹریزامے نے قندیل کے قتل پر کہا تھا کہ ’غیرت کے نام پر کیے جانے والے قتل میں کوئی غیرت نہیں ہوتی۔‘
منٹو کی کئی کہانیوں پر فحش ہونے کا الزام لگایا گیا، ایسے الزامات پر ان کا صرف ایک ہی جواب ہوتا تھا ’میری کہانیاں معاشرے کی عکاس ہیں، اگر میری کہانیاں فحش ہیں تو معاشرہ بھی فحش ہے۔
فوزیہ عظیم یکم مارچ 1990 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئی۔ زندگی کے 26 برسوں میں شاید ہی کوئی پل ہو جو سکون اور راحت میں گزرا ہو۔ غریب گھرانے کا بڑا کنبہ تھا ہی مسائل کی جڑ، اوپر سے مفلسی کے تازیانے ہر روز ذہن پر نیا الم نقش کرتے تھے۔
مزید پڑھیں:محبت کا آخری عجوبہ
عہدِ شباب میں قدم رکھتے ہی فوزیہ کے ہاتھ پیلے کر دیے گئے تھے، لیکن مزاجی خدا کی ہر روز کی مارپیٹ نے اس کا بدن نیلا کر رکھا تھا۔ پہلے سال ہی بیٹے کی پیدائش کے بعد ظلم و ستم برداشت نہ ہوا تو بھاگ کر دارالامان میں پناہ لی۔ نومولود بیٹے کی ضروریات اور بیماری کے لیے پیسے نہ ہونے پر بیٹا والد کے حوالے کرکے سماج سے بغاوت کا اعلان کردیا۔
’لذتِ سنگ‘ میں منٹو لکھتے ہیں ’میرے پڑوس میں اگر کوئی عورت ہر روز خاوند سے مار کھاتی ہے اور پھر اس کے جوتے صاف کرتی ہے تو میرے دل میں اس کے لیے ذرہ برابر ہمدردی پیدا نہیں ہوتی، لیکن جب میرے پڑوس میں کوئی عورت اپنے خاوند سے لڑکر اور خودکشی کی دھمکی دے کر سنیما دیکھنے چلی جاتی ہے اور میں خاوند کو دو گھنٹے پریشانی کی حالت میں دیکھتا ہوں تو مجھے دونوں سے ایک عجیب وغریب قسم کی ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے۔‘
فوزیہ نے شوبز انڈسٹری میں کام کرنے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن اسے عجیب و غریب آفرز ہونے لگی تھیں، نائٹ پارٹیز میں آؤ، یہ کرو، وہ کرو ۔ ۔ ۔ ۔ در در کی خاک چھاننے کے بعد فوزیہ عظیم نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور قندیل بلوچ بن گئی۔
مزید پڑھیں:ایک تھا جلیانوالہ باغ
منٹو نے ’کالی شلوار‘ میں لکھا تھا ’بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹریاں بچھی تھیں۔ دھوپ میں لوہے کی یہ پٹریاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی رگیں بالکل ان پٹریوں کی طرح ابھری رہتی تھیں۔ کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو اکیلے پٹریوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا، وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹری پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے۔ دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جا رہی ہے۔ جانے کہاں پھر ایک ایسا وقت آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور وہ کہیں رک جائے گی۔‘
قندیل نے سوشل میڈیا کی دنیا میں تہلکہ مچادیا، وہ گوگل پر سرچ کی جانے والی ٹاپ ٹین شخصیات میں شامل ہوگئی تھی۔ اس نے منافق معاشرتی رویوں سے کھیلنے کا گر سیکھ لیا تھا۔ لاکھوں پرستار اس کی پوسٹس اور ویڈیوز کو پسند بھی کرتے اور تبرا کرنا بھی اپنا حق سمجھتے تھے۔ تماش بین کہتے تھے کہ اس کا لباس نامناسب اور گفتگو ذومعنی ہے۔ اگرچہ قندیل اپنے خول میں سمٹنے لگی تھی لیکن فالوورز کی بیحد پسندیدگی نے اس کی بیباکی کو بے لگام کردیا تھا۔
مزید پڑھیں:منٹو کا واحد پنجابی افسانہ اور احمد ندیم قاسمی
منٹو کا افسانہ ’ہتک‘ پیار کے دو بول کے لیے ترستی ہوئی ایک ایسی بے بس و بے سہارا طوائف (سوگندھی) کی کہانی ہے جو ذلت کی انتہا پر پہنچ کر خود آگہی سے دو چار ہوتی ہے۔ سوگندھی ایک پیشہ ور طوائف ہے، رات کے دو بجے جب ایک سیٹھ اسے ٹھکرا کر چلا جاتا ہے تو اس کے اندر کی عورت جاگتی ہے اور پھر ایک شدید قسم کی نفسیاتی کیفیت میں مبتلا ہو کر پیار کا ڈھونگ رچانے والے مادھو لال کو بھی دھتکار کر بھگا دیتی ہے اور اپنے خارش زدہ کتے کو پہلو میں لٹا کر سوجاتی ہے۔