ورلڈ چیمپیئین شپ آف لیجنڈز 2024 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالرزاق نے کہا کہ ٹورنامنٹ میں سب نے اچھی پرفارمنس دی اور ایسا لگا ہی نہیں کہ اس میں ریٹائرڈ کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔
ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے عبدالرزاق نے کہا کہ ٹونامنٹ میں تقریباً تمام ہی ٹیمیں زبردست کھیلیں اور ہم جب سیمی فائنل میں پہنچے تو لگا جیسے ہم انٹرنیشنل کرکٹ میں واپس آگئے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستانی ٹیم فائنل (بھارت کے خلاف) کیوں نہیں جیت سکی اور وہ خود اس میچ میں ٹیم میں کیوں نہیں تھے تو انہوں نے کہا کہ وہ بہت فارم میں تھے اور انہوں نے جس طرح بقیہ میچز کھیلے تھے اس میں ان کی پرفارمنس بہت اچھی تھی لیکن انہیں فائنل میں موقع نہیں مل سکا ورنہ شاید صورتحال مختلف ہوتی۔
کیا این او سی لے کر چیمپیئن شپ میں گئے تھے؟
عبدالرزاق سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اور وہاب ریاض اس ٹورنامنٹ میں این او سی لے کر گئے تھے تو ان کا کہنا تھا کہ جی ہاں دونوں بتاکر گئے تھے اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے این او سی دے دی تھی۔
بحیثیت سلیکٹر ٹیم میں آؤٹ آف فارم کھلاڑی شامل کرنے کا الزام
یاد رہے کہ حال ہی میں عبدالرزاق اور وہاب ریاض کو پاکستان کی ٹی 20 ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی کے بعد سلیکٹرز کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
اس حوالے سے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے ٹیم میں آؤٹ آف فارم کھلاڑی شامل کیے تو انہوں نے اس بات سے انکار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سلیکشن ٹیم نے پالیسی کے تحت ہی کھلاڑی شامل کیے اور اس سطح پر یہ ممکن نہیں ہوتا کہ سلیکٹرز پسند نا پسند کی بنیاد پر فیصلے کریں بلکہ متعلقہ کھلاڑیوں کی پوری کارکردگی سامنے ہوتی ہے جس کی بنیا پر ہی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا ممکن ہی نہیں تھا کسی کھلاڑی کی پرفارمنس نہ ہو اور وہ سلیکٹ کیے جانے کا اہل نہ ہو اور اسے وہاب ریاض اور عبدالرزاق ٹیم میں شامل کرلیں۔
عبدالرزاق نے شاداب اور افتخار احمد کی ٹیم میں شمولیت کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شاداب تو پی ایس ایل کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے اور چوں کہ مڈل آرڈر میں ہارڈ ہٹنگ بیٹسمین نہیں تھے تو ہم نے افتخار کو لیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ افتخار ہارڈ ہٹنگ کرتے رہے تھے اور وکٹیں بھی لے رہے تھے اس لیے انہیں ٹیم میں موقع دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو کھلاڑی لیے گئے تھے وہ اپنی پرفارمنس اور اہلیت کی بنیاد پر ہی لیے گئے تھے اب اگر وہ مخصوص ٹورنامنٹ میں کارکردگی نہ دکھا سکے تو یہ ان کی اور سلیکٹرز کی بدقسمتی ہی کہلائے گی۔
ابرار کو موقع نہ دیے جانے پر انہوں نے کہا کہ سلیکٹرز کا کام ہوتا ہے ٹیم سلیکٹ کرنا پھر منیجمنٹ کی مرضی ہوتی ہے ہاں اگر سلیکشن کمیٹی کا کوئی چیف سلیکٹر ہوتا تو وہ مداخلت کرسکتا تھا۔
کیا ٹیم میں عدم اتفاق اور تعصب ہے؟
عبدالرزاق نے اس پر کوئی سیدھا جواب نہیں دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ شاہین آفریدی کی جگہ بابر اعظم کو کپتان بنایا گیا تو وہ کمیٹی میں زیادہ لوگوں کے ووٹ کی وجہ سے اور بورڈ کی پالیسی کے تحت ہوا۔