کیا آپ جانتے ہیں کہ 2 کلوگرام وزنی کمپیوٹر تیار کرنے میں 800 کلوگرام خام مال استعمال ہوتا ہے؟ یا گزشتہ سال بِٹ کوائن کی ڈیٹا مائننگ کے لیے درکار توانائی کی مقدار 121 ٹیرا واٹ تک پہنچ گئی تھی، جو چھوٹے ممالک میں ہر سال استعمال والی توانائی سے بھی زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بٹ کوائن کی مارکیٹ کریش کیسے ہوئی، مستقبل کیا ہے؟
یہ انکشافات اقوام متحدہ کے ادارہ تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی جانب سے ڈیجیٹل معیشت پر جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں سامنے آئے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ تیزی سے فروغ پاتے اس شعبے کے ماحول پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو مزید سنجیدگی سے لینا اور قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری کے ذریعے ان کی رفتار کو سست کرنا ضروری ہے۔
توانائی کے خرچ میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ
’انکٹاڈ‘ کی سیکریٹری جنرل ریبیکا گرینسپین نے کہا ہے کہ مصنوعی ذہانت، کرپٹو کرنسی اور کرپٹو مائننگ جیسی ٹیکنالوجی کے ظہور سے توانائی کے خرچ میں بہت بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔
ای کامرس کا فروغ
ریبیکا گرینسپین نے جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ 2015 اور 2020 کے درمیان بِٹ کوائن کی مائننگ میں خرچ ہونے والی توانائی کی مقدار میں 34 فیصد تک اضافہ ہوا، جو 121 ٹیرا وائٹ تک پہنچ گئی تھی۔ اس توانائی کی سالانہ مقدار بیلجیئم اور فن لینڈ جیسے ممالک میں ہر سال خرچ کی جانے والی توانائی سے بھی زیادہ ہے۔
کامرس بمقابلہ ای کامرس
آج دنیا بھر میں 5.4 ارب لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں اور عالمگیر ڈیجیٹل معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، جس سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اس معیشت کی قدر کو ہی دیکھا جائے تو 2022 میں 43 ممالک میں ای کامرس کے ذریعے 27 ٹریلین ڈالر کی خرید و فروخت ہوئی جبکہ 2016 میں اس تجارت کا حجم 17 ٹریلین ڈالر تھا۔
یہ بھی پڑھیں:ٹک ٹاک کے نئے ’اے آئی ٹول‘ سے قابلِ اعتراض مواد بنایا جا سکتا ہے؟
منفی رُخ
ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں بہت سی باتیں ہوتی ہیں کہ کیسے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کاغذ کے استعمال میں کمی لاسکتی ہے، اس سے توانائی کی استعداد میں بہتری لائی جا سکتی ہے اور یہ نقل و حمل، تعمیرات، زراعت اور توانائی کے شعبے سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے میں مدد دے سکتی ہے۔لیکن اس کے منفی رخ پر کم ہی بات ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کا عمل بڑی حد تک ‘مادی’ ہے اور اس کے لیے بڑی مقدار میں ایسی توانائی استعمال ہوتی ہے جس کا کاربن کے اخراج میں نمایاں ترین کردار ہے۔
‘انکٹاڈ’ کی رپورٹ اور تجاویز
ماحول کو لاحق اس خطرے سے نمٹنے اور ٹیکنالوجی کو مساوی اور ماحولیاتی اعتبار سے ذمہ دارانہ بنانے کے لیے ‘انکٹاڈ’ کی اس رپورٹ میں پالیسی کے حوالے سے متعدد تجاویز دی گئی ہیں جو موبائل فون سمیت الیکٹرانک آلات کی تیاری میں استعمال ہونے والی قیمتی دھاتوں سے لے کر پانی جیسے دیگر اہم قدرتی وسائل تک بہت سے چیزوں کا احاطہ کرتی ہیں۔
توانائی کی طلب
‘انکٹاڈ’ کے مطابق 2022 میں دنیا بھر کے ڈیٹا مراکز نے 460 ٹیرا واٹ آور توانائی استعمال کی جو کہ امریکا میں ایک سال کے دوران 4 کروڑ 20 لاکھ گھروں میں استعمال ہونے والی بجلی کے برابر ہے۔ متوقع طور پر 2026 تک یہ مقدار دو گنا بڑھ جائے گی۔
گرین ہاؤس گیسز
ادارے نے بتایا ہے کہ عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ڈیجیٹل شعبے کا حصہ 1.5 سے 3.2 فیصد تک ہے جو کہ نقل و حمل اور جہاز رانی سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے برابر ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بٹ کوائن کی قیمت میں ایک بار پھر تاریخی اضافہ
توانائی کے خرچ میں دوگنا اضافہ
2018 اور 2022 کے درمیانی عرصہ میں 13 بڑے ڈیٹا سینٹر آپریٹروں کے توانائی کے خرچ میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہوا۔ اس سے ٹیکنالوجی کے اس شعبے میں توانائی اور پانی کے خرچ سے مسئلے سے نمٹنے کی ہنگامی ضرورت واضح ہوتی ہے۔
گوگل، مائیکرو سافٹ اور پانی
گرینسپین نے کہا ہے کہ گوگل نے انکشاف کیا تھا کہ 2022 میں اس کے ڈیٹا مراکز اور دفاتر میں 5.6 ارب گیلن (21.2 ملین کیوبک میٹر) پانی استعمال ہوا۔ اسی برس مائیکروسافٹ نے بتایا کہ اس کے ہاں 6.4 ملین کیوبک میٹر پانی استعمال کیا گیا۔ حالیہ دنوں متعدد ممالک میں واقع ایسے مراکز میں پانی کے بڑی مقدار میں استعمال نے مقامی لوگوں میں تشویش اور تناؤ کو جنم دیا ہے۔
مائیکروسافٹ کے مطابق صرف چیٹ جی پی ٹی۔3 کی تیاری کے لیے ہی 7 لاکھ گیلن صاف اور تازہ پانی کی ضرورت ہو گی۔
ای فضلے میں اضافہ
رپورٹ کے مطابق، 2000 میں آن لائن خریداری کرنے والوں کی تعداد 10 کروڑ تھی جو 2021 میں 2.3 ارب تک جا پہنچی۔ اس اضافے کے نتیجے میں 2010 سے 2022 کے درمیان ڈیجیٹل سرگرمیوں سے پیدا ہونے والے فضلے یا کچرے کی مقدار 10 کروڑ 50 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی تھی۔
فضلہ ٹھکانے لگانے کا ناکافی انتظام
گرینسپین کا کہنا ہے کہ اس فضلے کو ٹھکانے لگانے کا انتظام بھی ناکافی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی آلودگی اور ماحول پر اس کے اثرات کو دیکھا جائے تو یہ مسئلہ سنگین تشویش کا باعث ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایپل کی اوپن اے آئی سے شراکت داری پر ایلون مسک کی دلچسپ ٹویٹ
ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کی غیرمساوی تقسیم
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک ہر سال فی کس 3.25 کلو گرام ڈیجیٹل فضلہ پیدا کرتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں اس کی مقدار ایک کلوگرم سے کم اور کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں 0.21 کلوگرام تک ہے۔ اس سے ڈیجیٹلائزیشن کے فوائد کی غیرمساوی تقسیم کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
اہم معدنیات
رپورٹ میں عالمی بینک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ڈیجیٹلائزیشن کے لیے درکار گریفائٹ، لیتھیم اور کوبالٹ جیسی معدنیات کی مانگ میں 2050 تک 500 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کا ایسی معدنیات اور دھاتوں کی ترسیل کے عالمگیر نظام میں اہم کردار ہے۔ جو زیادہ تر چند خطوں میں واقع ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا کی کم کاربن والی اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی جانب منتقلی کے لیے لازمی اہمیت کی حامل کوبالٹ، تانبے اور لیتھیم جیسی دھاتوں کے وسیع ذخائر افریقہ میں واقع ہیں۔ یہ دھاتیں پائیدار توانائی کے مستقبل کے لیے خاص اہمیت رکھتی ز، 21.6 فیصد قدرتی گریفائٹ، 5.9 فیصد تانبا، 5.6 فیصد نکل اور ایک فیصد لیتھیم اسی براعظم میں پایا جاتا ہے۔
ترقی کے مواقع
ان اہم معدنیات کی بڑھتی ہوئی طلب باوسائل ترقی پذیر ممالک کے لیے ان کی قدر میں اضافے کا موقع ہے۔ اس طرح وہ اپنی معیشت کو متنوع بنا سکتے ہیں اور ترقی میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ تاہم، گرینسپین کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے انہیں ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ ان کا ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے مقاصد کے ساتھ مؤثر طور سے مطابقت پیدا کرنا ضروری ہے۔
عالمگیر ڈیجیٹل معیشت
موجودہ عالمگیر مسائل، محدود مالیاتی گنجائش، سست رو ترقی اور بھاری قرضوں کے باعث ترقی پذیر ممالک کو اندرون ملک پراسیسنگ اور صنعت کاری کے ذریعے اس موقع کو زیادہ سے زیادہ کام میں لانے کی ضرورت ہو گی۔ اس سے انہیں عالمگیر ڈیجیٹل معیشت میں بڑا حصہ لینے، حکومتوں کو آمدنی پیدا کرنے، ترقیاتی کاموں پر مالی وسائل خرچ کرنے، اشیا کی فروخت پر انحصار ختم کرنے، روزگار تخلیق کرنے اور رہن سہن کا معیار بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
یہ بھی پڑھیں:بٹ کوائن کی ہر ادائیگی پر ایک سوئمنگ پول جتنا پانی صرف ہوتا ہے
گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ڈیجیٹل شعبے کا حصہ 1.5 سے 3.2 فیصد تک ہے جو کہ نقل و حمل اور جہاز رانی سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے برابر ہے۔UN Photo/Elma Okic گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ڈیجیٹل شعبے کا حصہ 1.5 سے 3.2 فیصد تک ہے جو کہ نقل و حمل اور جہاز رانی سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں کے برابر ہے۔
کامیابی کے عناصر
‘انکٹاڈ’ نے ڈیجیٹل ترقی کو مزید پائیدار صورت دینے کے لیے نئے کاروباری نمونے اور مضبوط پالیسیاں تجویز کی ہیں۔ اقوام متحدہ میں تجارت و ترقی کے ماہرین نے اس حوالے سے دنیا کو درج ذیل سفارشات پیش کی ہیں:
دائروی معیشت کے نظام اختیار کیے جائیں اور ڈیجیٹل اشیا کو دوبارہ قابل استعمال بنا کر اور بحال کر کے ڈیجیٹل فضلے اور ماحولیاتی نقصان میں کمی لائی جائے۔
خام مال کو مزید مؤثر طریقے سے استعمال میں لا کر اور اس کے مجموعی استعمال کو کم کرنے کے منصوبے بنا کر وسائل سے بہتر طور پر کام لیا جائے۔
ضوابط کو مضبوط کیا جائے، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ماحولیاتی اثرات کو کم رکھنے کے لیے کڑے ماحولیاتی معیارات اور قوانین تشکیل دیے جائیں۔
قابل تجدید توانائی پر سرمایہ کاری کی جائے، تونائی کو مؤثر طور سے استعمال کرنے والی ٹیکنالوجی اور پائیدار ڈیجیٹل طریقہ ہائے کار پر تحقیق اور ان کی ترقی کے کام میں مدد دی جائے۔
بین الاقوامی تعاون کو فروغ دیا جائے۔ ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور ذرائع تک منصفانہ رسائی یقینی بنانے، عالمگیر ڈیجیٹل فضلے پر قابو پانے اور معدنیات نکالنے سے متعلق مسائل سے نمٹنے کے لیے اکٹھے کام کریں۔
یہ بھی پڑھیں:کیا مائیکروسافٹ کا نیا اے آئی ماڈل صارفین کی سیکیورٹی کے لیے خطرناک ہے؟
ڈیجیٹل معیشت کا مرکزی کردار
ریبیکا گرینسپین کہتی ہیں کہ عالمگیر ترقی اور اس کے مواقع یقینی بنانے میں ڈیجیٹل معیشت کا مرکزی کردار ہے۔ اسی لیے دنیا کو ایسے طریقہ ہائے کار سے کام لینے کی ضرورت ہے جو لوگوں کو ہر طرح سےفائدہ پہنچائیں اور ماحولیاتی استحکام سمیت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ ثابت نہ ہوں۔