وادی ہنزہ کی 1400 سال پرانی بستی گنش سیاحوں کے لیے دلچسپی کا بڑا مرکز بن چکی ہے۔
بستی کی بھرپور تاریخی ثقافتی اہمیت اور اس کے دلکش فن تعمیر نے دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لیا ہے۔ مقامی لوگ آج بھی اپنے بزرگوں کی نشانیاں زندہ رکھے ہوئے ہیں, یہ قدیم ترین آبادی جو 1400 سال پرانی تاریخ رکھتی ہے، ہنزہ گنش کی اس آبادی کو قلعہ بند گاؤں بھی کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ہنزہ کی روایتی ٹوپیاں بنانے والی خواتین کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
پرانے وقتوں میں قبائل آپس میں لڑتے تھے، اس لیے کھلی آبادیاں نہیں ہوتی تھیں چنانچہ جنگوں سے محفوظ رہنے کے لیے گنش کے لوگوں نے قلعہ نما مکان تعمیر کیے۔
وادی ہنزہ کی اس قدیم آبادی کے ثقافتی ورثے میں دلچسپی رکھنے والے بہت سارے سیاح یہاں آکر خوش دکھائی دیتے ہیں۔
گاؤں کے رہائشی شبیر نے بتایا کہ اس کو ہنزہ کی سب سے پہلی آبادی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قلعہ بند گاؤں ہے یعنی شروع میں قبائل ایک دوسرے پر حملے کیا کرتے تھے۔ جہالت کا دور تھا۔ اس زمانے میں کسی کھلی جگہ میں گھر بنا کے رہنا انتہائی غیر محفوظ تھا اس لیے لوگوں نے مناسب سمجھا کہ وادی ہنزہ کی گنش کو قلعہ بند کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں : ہنزہ: ٹرافی ہنٹنگ کا سیزن اختتام پذیر، کتنے جانور شکار ہوئے؟
یہ قدیم بستی سیاحوں کے لیے ایسا مقام بن گئی جس کی سیر لازم سمجھی جاتی ہے ۔ یہ خطے کے بھرپور ثقافتی ماضی کی منفرد جھلک پیش کرتی ہے، ہرسال بڑی تعداد میں سیاح اس آبادی کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
مقامی شخص نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان کے فورٹس کی طرح اگر اس آبادی کو اور اس اثاثے کو محفوظ بنانے اور اس کی حفاظت کے لیے گورنمنٹ اقدامات کرے تو یہ پرانے گھر ایک ورثے کے طور پر محفوظ رکھے جاسکتے ہیں۔
گورنمنٹ کی عدم توجہی کے باعث فن تعمیر کے شاہکار یہ گھر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ان کے مزید خراب ہونے کے خدشات ہیں، اس لیے انہیں ہنگامی بنیادوں پر محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ مزید جانیے اس ویڈیو رپورٹ میں