عالمی عدالت انصاف نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو غیرقانونی قرار دے دیا

جمعہ 19 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔

ہالینڈ کے شہر ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے فلسطین پر اسرائیل کے ناجائر قبضے کی ’قانونی حیثیت‘ کے معاملے پر اپنی رائے دے دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ عالمی عدالت انصاف میں سماعت شروع

عالمی عدالت انصاف نے اپنی رائے میں کہا ہے کہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں آبادکاری کی سرگرمیاں بند کرنی چاہئیں اور ان علاقوں اور غزہ کی پٹی پر اپنا غیرقانونی قبضہ جلد از جلد ختم کرنا چاہیے۔

اس معاملے پر دی گئی عدالتی رائے کسی بھی فریق کو قانونی طور پر کوئی اقدام کرنے کا پابند نہیں کرتی تاہم عالمی عدالت انصاف کی اس رائے کا ایک سیاسی وزن ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب آئی سی جے نے 57 سالہ قبضے کی قانونی حیثیت پر کوئی مؤقف پیش کیا ہے۔

عالمی عدالت انصاف کے صدر نواف سلام نے عدالتی رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسرائیل کی مقبوضہ فلسطینی علاقے میں مسلسل موجودگی غیرقانونی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اپنی غیرقانونی موجودگی کو جلد از جلد ختم کرے اور اپنے تمام آباد کاروں کو وہاں سے نکالے اور فلسطینیوں کو ناجائز قبضے سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کرے۔

معاملہ ہے کیا؟

2022ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مشرقی بیت المقدس سمیت اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کے نتائج سے متعلق عالمی عدالت انصاف سے غیرمشروط قانونی رائے طلب کی تھی۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عالمی عدالت انصاف سے 2 اہم سوالات پر رائے طلب کی تھی۔ پہلا سوال یہ تھا کہ عدالت اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی خلاف ورزی کے قانونی نتائج کا تجزیہ کرے، جس میں 1967 سے جاری قبضہ، غیرقانونی  بستیوں کی تعمیر، فلسطینی علاقوں میں آبادکاری اور مقبوضہ بیت المقدس میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے سے متعلق اسرائیلی اقدامات جیسے معاملات بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ فلسطینیوں کی دنیا بدل سکتا ہے‘

دوسرا سوال یہ تھا کہ یہ پالیسیاں قبضے کی قانونی حیثیت پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں اور صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ اور تمام ملکوں کو اس کی وجہ سے کن قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف‘ نے فروری میں اس معاملے پر 6 دن تک سماعت کی تھی۔ قانونی بحث میں 50 سے زائد ملکوں کے نمائندوں نے حصہ لیا تھا جبکہ برطانیہ اور کینیڈا سمیت بعض ممالک نے عدالت کو اس معاملے پر رائے کا اظہار نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اسرائیل نے عدالتی بحث میں حصہ نہیں لیا تھا بلکہ تحریری بیان جمع کرایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ عدالتی رائے تنازعہ فلسطین کے حل کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔

عالمی عدالت انصاف نے اپنی رائے میں مزید کیا کہا؟

عدالتی رائے میں کہا گیا کہ عالمی عدالت انصاف کو اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں پر رائے دینے کا حق حاصل ہے، اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں شہریوں کے تحفظ کا پابند ہے۔

عدالتی رائے میں کہا گیا کہ اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں سنگین خلاف ورزیاں کیں، فلسطین پر اسرائیلی قبضہ ایک ناجائز تسلط ہے، اسرائیل ایک پالیسی کے تحت فلسطینیوں سے امتیازی سلوک کررہا ہے۔

عدالت نے کہا کہ اسرائیلی اقدامات فلسطین کے حق خودارادیت کو بھی متاثر کررہے ہیں، اسرائیل کا مقبوضہ فلسطین کے قدرتی وسائل کااستعمال بھی غیرقانونی ہے، بین الاقوامی معاہدوں کے تحت اسرائیل مقبوضہ علاقوں میں پانی اور غذائی امداد پہنچانے کا پابند ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: اسکول پر اسرائیلی میزائل حملوں میں 17 فلسطینی پناہ گزین شہید

آئی سی جے نے اپنی رائے میں کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے شہریوں کو زبردستی بے دخل کرنا سنگین عمل ہے، اسرائیل کا فلسطینی علاقوں پر جبری قبضہ کر کے اجارہ داری قائم کرنا جنیوا معاہدے کی خلاف ورزی ہے، اسرائیل فلسطینیوں کے مقبوضہ علاقوں کے وسائل غصب کررہا ہے۔

رائے میں کہا گیا کہ اسرائیل مغربی کنارے پر زبردستی اپنا تسلط قائم کرنے کے منصوبے پرعمل پیرا ہے، عدالت اسرائیل کے مغربی کنارے میں اپنے قوانین کے نفاذ سے متعلق دی گئی وجوہات سے قائل نہیں، اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس میں غاصبانہ انداز اپنایا ہوا ہے جیسے کہ یہ اس کا اپنا علاقہ ہو۔

اسرائیل نے 1967 سے اب تک مغربی کنارے اور مشرقی مقبوضہ بیت المقدس میں تقریباً 160 یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں جن میں تقریباً 7 لاکھ یہودی رہائش پذیر ہیں۔ عدالت نے اپنی رائے میں کہا کہ یہ بستیاں غیرقانونی تھیں جبکہ اسرائیل نے مسلسل اس بات پر اختلاف کیا۔

واضح رہے کہ اسرائیل پورے بیت المقدس پر خودمختاری کا دعویٰ بھی کرتا ہے، جسے وہ اپنا ناقابل تقسیم دارالحکومت سمجھتا ہے، اسرائیل کے اس دعویٰ کو دنیا کے بیشتر ممالک قبول نہیں کرتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp