بھارت نے گزشتہ سال اپنے چاول کو عالمی منڈی سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا تو پاکستانی برآمدکنندگان کو بھی بین الاقومی منڈی میں اپنی دھاک بٹھانے کا نادر موقع ملا، اس پابندی کے باعث بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو کسانوں کی جانب سے شدید مذمت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں بھی ناکام رہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو دنیا بھر سے چاول کے بڑے آرڈرز اچانک کیوں ملنا شروع ہوگئے؟
’پرافٹ ‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بھارتی حکومت کو پتہ چلا کہ ملک میں چاول کی فراہمی خطرے سے دوچار ہو رہی ہے اور یہ ایک ایسے وقت کی بات ہے جب بھارت میں غذائی اجناس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور بازار میں چاولوں کی شدید قلت محسوس کی جا رہی تھی۔
بھارتی حکومت نے برآمد کنندگان کو مقامی سطح پر چاول فروخت کرنے پر مجبور کیا
ایسے میں بھارتی حکومت نے محسوس کیا کہ برآمد کنندگان لالچی ہیں اور چاول بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں وہاں بہتر قیمتیں ملتی ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی انتظامیہ نے انتخابی مہم کے وسط میں چاولوں کے برآمد کنندگان کو چاول مقامی سطح پر فروخت کرنے پر مجبور کرنے کے لیے باسمتی زمرے کو چھوڑ کر چاول کی دیگر تمام اقسام کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔
پاکستان کے پاس چاول کی عالمی مارکیٹ پر قبضہ کرنے کا نادر موقع
رپورٹ کے مطابق یہ پاکستان کے لیے ایک بڑا نادر موقع تھا، جہاں پاکستان چاول کے لیے بیرونی ذرائع پر انحصار کرنے والے ممالک کے لیے خود کو بھارت کے متبادل کے طور پر پیش کر سکتا تھا۔ لیکن اب بھارتی حکومت کے ذرائع نے گزشتہ ہفتے کہا ہے کہ بھارت باسمتی چاول کی برآمدات کے لیے فلور پرائس میں کمی کر سکتا ہے اور غیر ملکی شپمنٹ پر مقررہ ڈیوٹی لگا کر باسمتی چاول کی برآمدات پر 20 فیصد ایکسپورٹ ٹیکس فکس کر سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:پاکستان نے جولائی تا اگست 234 ملین ڈالر مالیت کے چاول برآمد کیے
بھارت چاول کا بڑا برآمد کنندہ ہے، محض2022 میں پڑوسی ملک نے پوری دنیا کو 22 ملین ٹن سے زیادہ چاول برآمد کیا۔ دنیا میں سفید چاول کا واحد سب سے بڑا برآمد کنندہ ہونے کے ناطے، چاول کی عالمی مارکیٹ کا 40 فیصد حصہ بھارت کنٹرول کرتا ہے جو مختلف قسم کے چاول فراہم کرتا ہے جس پر دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک ان کی چاول کی کھپت کے لیے بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔
بھارت نے چاول کی برآمد پر پابندی عائد کردی
لیکن 2023 میں بھارت نے خوشبودار اور مہنگے باسمتی قسم کے علاوہ ہر قسم کے چاول کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہ پابندی ہندوستان میں چاول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ملک میں پیدا ہونے والے عام غذائی افراط زر کے بحران کے جواب میں عائد کی گئی۔
نتیجتاً چاول کی بین الاقوامی منڈی میں اچانک ایک کروڑ ٹن سے زیادہ چاول کی قلت محسوس ہوئی۔ روس یوکرین جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک کا بحران پہلے ہی عروج پر پہنچنے والا ہے، چاول درآمد کرنے والے ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کو اچانک ایک پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ چاول کی اس بڑی کمی کو کیسے پورا کیا جائے گا؟
بھارت کی جانب سے چاول پر پابندی کی خبر کے نتیجے میں امریکا اور دیگر ممالک میں سپر مارکیٹوں کو خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑا جو بھارتی چاول پر انحصار کرتے ہیں۔ کچھ دوسرے ممالک جو برآمد کنندگان بھی ہیں وہ بھی اپنی مقامی منڈیوں کے تحفظ کے لیے اس طرح کی پابندی عائد کرسکتے ہیں۔ اس سے پاکستان کے لیے بھی ایک ناقابل یقین موقع فراہم ہوا تھا۔
پاکستان چاول برآمد کرنے والا دُنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے
بھارت چاول برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ تھائی لینڈ دوسرے نمبر پر ہے، چاول برآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک کی فہرست میں پاکستان چوتھے نمبر پر ہے جبکہ ویتنام تیسرے نمبر پر ہے۔ 2022 میں پاکستان کی چاول کی کل پیداوار 5.5 ملین ٹن سے کچھ زیادہ تھی اور مجموعی برآمد تقریباً 3.5 ملین ٹن تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی برآمدات امریکا، برطانیہ اور چین میں سرفہرست
چین، فلپائن اور نائجیریا چاول کے بنیادی خریدار ہیں، دریں اثنا، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش جیسے ممالک، جنہیں اکثر ’سوئنگ خریدار‘ کہا جاتا ہے، گھریلو رسد کے خسارے کا سامنا کرتے ہوئے اپنی درآمدات میں اضافہ کرتے ہیں۔ چاول کی کھپت نہ صرف افریقا میں زیادہ ہے بلکہ بڑھ رہی ہے۔
بھارت نے 140 ممالک کو 22 ملین ٹن چاول برآمد کیا
رپورٹ کے مطابق کیوبا اور پاناما جیسے ممالک کے لیے، چاول خوراک کا ایک اہم ذریعہ ہے پچھلے سال بھارت نے 140 سے زیادہ ممالک کو 22 ملین ٹن چاول بھیجا تھا۔ اس میں سے زیادہ سستے انڈیکا سفید چاول 6 ملین ٹن تھے۔ سیاق و سباق میں چاول کی عالمی تجارت کا تخمینہ 56 ملین ٹن لگایا گیا ہے۔
تھائی لینڈ، ویتنام اور پاکستان، جو بالترتیب دنیا کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے بڑے برآمد کنندگان ہیں، نے بھی اب کہا ہے کہ وہ فروخت کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں کیونکہ ہندوستان کی پابندی کے بعد ان کی فصلوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس بحران میں پاکستان کا بڑا کردار ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا حکومت اس حوالے سے کوئی کردار ادا کر پائے گی؟ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (ریپ) کے ایک عہدیدار کے مطابق گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب سے نکلنے کے بعد پاکستان 4.5 ملین سے 5.0 ملین ٹن چاول برآمد کرسکتا ہے۔
پاکستان چاول کی برآمدات میں اضافہ کیوں نہیں کر سکتا؟
لیکن پہلے ہی ریپ کو تشویش ہے کہ چونکہ پاکستان میں غذائی اجناس کی قیمتیں پہلے ہی بہت زیادہ ہیں، لہٰذا حکومت چاول برآمد کرنے میں اتنی دلچسپی نہیں لے سکتی کیونکہ اس کی برآمد سے مقامی سطح پر یہ مزید مہنگا ہو جائے گا۔
گزشتہ ماہ ختم ہونے والے مالی سال کے لیے پاکستان سے چاول کی برآمدات 5.8 ملین ٹن تک پہنچ سکتی ہیں جس کی بنیادی وجہ سازگار موسم، زرعی اجناس کی دستیابی اور غیر باسمتی چاول کی برآمدات پر بھارتی پابندی ہے۔
پاکستان کی چاول کی برآمدات 50 لاکھ ٹن سے تجاوز کر گئیں
ادارہ برائے شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 10 ماہ (جولائی تا اپریل مالی سال 24) میں چاول کی برآمدات 50 لاکھ ٹن سے تجاوز کرگئیں جس سے 3.4 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی جبکہ گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 1.8 ارب ڈالر مالیت کی 32 لاکھ ٹن برآمدات کی گئی تھیں۔
پاکستانی برآمد کنندگان نے چاول کی عالمی قلت کو پورا کیا
پاکستانی برآمد کنندگان نے غیر باسمتی چاول پر توجہ دی اور بھارت کی پابندی کی وجہ سے پیدا ہونے والی قلت کو پورا کیا۔ یہ غیر معمولی کامیابی غیر باسمتی کی برآمدات میں 32 فیصد اور باسمتی کی برآمدات میں 24 فیصد اضافے کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ 10ماہ کے دوران باسمتی کی برآمدی قیمت اوسطاً 1141 ڈالر فی ٹن اور غیر باسمتی کی 573 ڈالر فی ٹن رہی۔
غیر باسمتی چاولوں کی بھارتی برآمدات اس سال حجم میں 10 لاکھ ٹن سے بھی کم رہ گئیں جو ایک سال قبل 16.4 ملین ٹن تھیں۔ بھارتی چاول کے تاجروں نے مودی حکومت کی جانب سے برآمد پر عائد پابندی کو تجارتی فیصلے کے بجائے سیاسی فیصلہ قرار دیا۔
پاکستان کی فی ٹن آمدنی 1137 ڈالر تھی
اسی عرصے (اپریل 2023ء تا مارچ 2024ء) کے دوران پاکستانی باسمتی چاول کی برآمد 0.73 ملین ٹن رہی جو بھارت کی باسمتی چاول کی برآمدات کا 14 فیصد ہے۔ لیکن پاکستان کی فی ٹن آمدنی 1137 ڈالر تھی جو بھارتی قیمت سے 3 فیصد زیادہ ہے۔
اب اطلاعات ہیں کہ بھارت چاول کی برآمد سے پابندی اٹھانے والا ہے اور وہ ایک بار پھر ہمیشہ سرفہرست برآمدکنندہ والی اپنی پوزیشن لینے والا ہے۔ وزیر اعظم مودی کی بی جے پی کی جانب سے حاصل کیے گئے کم تر انتخابی نتائج کی وجہ سے اس میں مزید اضافہ ہوا۔ نریندر مودی انتظامیہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ برآمدی پابندیوں اور مزید درآمدات کا سہارا لیے بغیر غذائی افراط زر کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے خاص طور پر ایسے اقدامات جن سے کسان ناراض ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی بڑی مقدار میں چاول روس کو برآمد کرنے کی تیاری
ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی کے لیے کچھ فیصلے ناگزیر ہیں، جیسے کم از کم 2 اشیا پر برآمدی پابندیوں میں نرمی کرنا۔ اس پر بھارتی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ موسم گرما میں بوئی جانے والی فصلوں کے لیے پیش کی جانے والی امدادی قیمتوں میں اضافہ کرے گی، لیکن اس اضافے سے کسانوں کو مطمئن ہونے کا امکان نہیں ہے۔
بھارت کی دوبارہ برآمد سے پاکستان کو ملنے والا موقع عارضی ثابت ہو گا
بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد دوبارہ شروع کرنے پر غور کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو جو موقع ملا وہ عارضی تھا۔ اب پاکستان دنیا کی چاول کی طلب کو پورا کرنے کے قریب نہیں آ سکتا۔ باسمتی (جو ایک بڑا فروخت کنندہ برانڈ ہے) کے علاوہ دیگر اقسام کی برآمد پر پابندی لگانے کے بھارت کے فیصلے سے عالمی سطح پر 10 ملین ٹن کی کمی پیدا کردی ہے جب کہ گزشتہ سال پاکستان کی مجموعی پیداوار صرف 5.5 ملین ٹن تھی۔ادھر 2021کے سیلاب سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان اور کھیتوں میں پانی بھرجانے کی وجہ سے یہ ایک انتہائی برا سال رہا۔
پاکستان میں چاول کا شعبہ برآمدی آمدنی، گھریلو روزگار، دیہی ترقی اور غربت میں کمی کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چاول پاکستان میں ایک اہم غذا کے ساتھ ساتھ نقد آور فصل بھی ہے۔
یہ زراعت میں شامل ویلیو ایڈڈ کا 3.0 فیصد اور جی ڈی پی کا 0.6 فیصد ہے۔ گندم کے بعد، یہ دوسری اہم غذائی فصل ہے۔ 2018-19 کے دوران، چاول کی فصل کا رقبہ 3.1 فیصد کم ہوا۔
پاکستان کو اپنے زرعی نظام میں اہم ترامیم کرنے کی ضرورت ہے
مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی طویل مدتی تبدیلی کے لیے پاکستان کو اپنے زرعی نظام میں اہم ترامیم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سال چاول کی برآمد کے لیے نئی منڈیاں تلاش کرنے کا ایک بہترین موقع ہوسکتا تھا لیکن اس کے بجائے پاکستان صرف اسٹاپ گیپ ہی حل کر پائے گا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان باسمتی میں مسابقتی برتری کھو چکا ہے جس کا اشارہ باسمتی کی مجموعی برآمد میں اس کا حصہ 2006 میں 46 فیصد سے گھٹ کر 2017 میں 10 فیصد سے بھی کم ہو گیا ہے، جسے پاکستان کے حریف بھارت نے آسانی سے اٹھا لیا تھا۔
اس عرصے کے دوران پاکستانی باسمتی کی برآمدات میں بھی 45 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اس گرتی ہوئی مسابقت کی وجہ اس عرصے کے دوران پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دینے والے متعدد عوامل ہیں، جن میں مضبوط تکنیکی جدت طرازی بھی شامل ہے، اس نے باسمتی میں زیادہ پیداواری ترقی کی ہے اور اعلیٰ ان پٹ سبسڈی کی وجہ سے پیداواری لاگت کم ہے۔