9 مئی کے منصوبہ سازوں کو ڈھیل دی جائے گی تو فسطائیت بڑھے گی، ڈی جی آئی ایس پی آر

پیر 22 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ملک کو درپیش سیکیورٹی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج کے خلاف ایک منظم اور من گھڑت پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، ایک طاقتور لابی ’عزم استحکام آپریشن‘ کے مقاصد کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے، فوج اور ملک کے خلاف ڈیجیٹل دہشتگردی میں ملوث ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے قوم اپنا کردار ادا کرے، سیاچن سے پاک آرمی کے جوانوں کا پیغام

جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) میں پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ ملک کی موجودہ صورت حال اور پاک فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈے کے بارے میں بات چیت کرنا ضروری تھی، جس کے لیے یہ پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

دہشتگردوں اوران کے سہولت کاروں کے خلاف 22409 آپریشنز کیے گئے

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج نے اس سال دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف 22409 چھوٹے بڑے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے، اس دوران 398 دہشتگردوں کو واصل جنہم کیا گیا۔ روزانہ کی بنیاد پر 112 سے زیادہ آپریشنز افواج پاکستان، پولیس، اینٹلی جنس ایجنسیز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں۔

31 انتہائی مطلوب دہشتگرد ہلاک کیے گئے

آپریشن کے دوران 31 انتہائی مطلوب دہشتگردوں کی ہلاکت بھی ہوئی ہے، رواں سال 137 افیسرز اور جوانوں نے آپریشن میں جام شہادت نوش کیا ہے، پوری قوم ان جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ بڑھتے ہوئے جھوٹ اور پروپیگنڈے کی وجہ سے یہ ضروری تھا کہ ہم آج جیسی پریس کانفرنسیں باقاعدگی سے منقعد کریں تاکہ ناصرف کسی بھی صورت حال پر مؤقف کی وضاحت ہو سکے بلکہ جان بوجھ کر پھیلائی گئی افواہوں اور جھوٹ کا سد باب ہو سکے۔

طاقتور لابی آپریشن عزم استحکام کے مقاصد کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے

سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم انتہائی سنجیدہ ایشوز کو بھی سیاست کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں اور ’آپریشن عزم استحکام‘ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، آپریشن عزم استحکام کے مقاصد کو ایک طاقتورلابی جان بوجھ کر سبوتاژ کرنا چاہتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت بھی کر چکی ہے اور ہم بھی آج واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ’آپریشن عزم استحکام‘ مکمل طور پر دہشتگردی کے خلاف ایک مہم ہے، نہ کہ یہ صرف ایک ملٹری آپریشن ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کیخلاف کیس کی جلد سماعت کے لیے ایک اور درخواست دائر

انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ 22 جون کو ملک کی اعلیٰ ترین سکیورٹی باڈی اپیکس کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تھا، کہا کہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نے قومی اتفاق رائے سے انسداد دہشتگردی کی پالیسی بنائی ہے‘۔

آپریشن عزم استحکام کی وجہ سے نقل مکانی نہیں ہوگی

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مہم کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں نو گو ایریاز موجود نہیں ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ آپریشن عزم استحکام کی وجہ سے مزید نقل مکانی نہیں ہوگی۔

فوج کے ترجمان نے صحافیوں کو بتایا کہ وزیر اعظم کے دفتر نے معاملے کی وضاحت کے لیے 24 جون کو بھی ایک بیان جاری کیا تھا کہ  ’آپریشن عزم استحکام کوئی فوجی آپریشن نہیں ہے۔ عزم استحکام کو متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے؟ ایک مضبوط لابی ہے جو چاہتی ہے کہ عزم استحکام کے مقاصد پورے نہ ہوں۔ اس کو سیاسی رنگ دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ایک مافیا جسے سیاسی مافیا یا ایک غیر قانونی مافیا کہا جائے تو درست ہو گا، نے یہ کیوں کہا کہ وہ اس آپریشن عزم استحکام کو ہونے نہیں دیں گے؟

ان کا کہنا تھا کہ 24 جون کو وزیراعظم آفس سے جاری جاری بیان میں یہ بھی واضح طور پر کہا گیا تھا کہ آپریشن عزم استحکام کو آپریشن ضرب عضب سے ملانے کی غلط کوشش کی جا رہی ہے۔ اس بیان میں پھر واضح کیا گیا کہ یہ آپریشن کوئی ملٹری آپریشن نہیں ہے بلکہ حکومتی مہم ہے۔

آپریشن عزم استحکام کے خلاف بہت بڑا غیر قانونی، سیاسی مافیا کھڑا ہوا

انہوں نے کہا کہ آپریشن عزم استحکام ایک ہمہ گیراورمربوط مہم ہے، جسے قانونی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حمایت حاصل ہو گی۔ انہوں نے پھر دہرایا کہ آپریشن کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک بہت بڑا غیر قانونی، سیاسی مافیا کھڑا ہوا اور اس مافیا کا پہلا قدم جھوٹے دلائل کے ذریعے آپریشنز کو متنازع بنانا تھا۔

انہوں نے نیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپریشنز شاندار انداز میں جاری ہیں اور ہر گھنٹے میں 4 سے 5 آپریشنز کیے جاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ منصوبے کے دیگر نکات میں موجود تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان سے پاکستان میں دہشتگردی لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کا پاکستان کے خلاف احتجاج کیوں؟

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ صوبائی سطح پر انسداد دہشتگردی کے محکمے قائم کیے جائیں گے اور وہ دہشتگردی کے خلاف آپریشنز کی قیادت کے ذمہ دار ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری سمجھا گیا 2014 اور 2021 میں بھی کہ انسداد دہشتگردی کے محکمے بنائے جائیں، نیکٹا ہر سال ریوائزڈ نیشنل ایکشن پلان کا اپ ڈیٹ دیتا ہے، اس اپ ڈیٹ کے مطابق خیبرپختونخوا میں سی ٹی ڈی کی تعداد 2437 ہے، جو فیلد آپریٹرزہیں وہ 537 ہیں اس کے باوجود دیکھیں وہاں دہشتگردی کتنی ہے، بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی تعداد 3438 ہے اور اس میں آپریشنل فیلڈ آپریٹرز 2776 ہیں۔

50 فیصد مدارس کا پتا ہی نہیں، کون چلا رہا ہے

انہوں نے بتایا کہ بات کی گئی تھی کہ مدارس کو ریگولیٹ اور رجسٹر کیا جائے، پاکستان میں تقریباً 32 ہزار سے زیادہ مدارس ہیں ان میں سے صرف 16 ہزار ہی رجسٹرڈ ہیں اور 50 فیصد مدارس کا تو پتا ہی نہیں ہےکہ کون چلا رہا ہے؟ کیا یہ کام فوج نے کرنا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ہم 2014 سے کہہ رہے کہ کریمنل جسٹس سسٹم کو مضبوط کیا جائے، اس وقت انسداد دہشتگردی کے لیے عدالتیں بنائی گئیں، نیکٹا کے مطابق خیبر پختونخوا میں اے ٹی سی کورٹس 13، بلوچستان میں 9 ہیں اس کے باوجود اتنی زیادہ دہشتگردی ہے کہ ہم اس سال 22 ہزار 400 سے زیادہ آپریشن کر چکے ہیں لیکن پچھلے پورے سال میں بلوچستان میں صرف 10 مقدمات ہوئے اورخیبرپختونخوا میں 14 مقدمات کو نمٹایا گیا۔

تمام سیاسی جماعتوں نے غیر قانونی اسپیکٹرم ختم کرنے کا فیصلہ کیا

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے غیر قانونی اسپیکٹرم ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ’ یہ غیر قانونی سپیکٹرم روزمرہ کی زندگی میں ہر جگہ محسوس اور دیکھا جاتا ہے اور یہ ایک بڑی غیر قانونی معیشت کو چھپاتا ہے جس کے ذریعے مجرمانہ نظام اور دہشتگردی کام کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:کوئٹہ: اسمگلنگ کیخلاف کسٹمز حکام کی کارروائیاں، 13 ارب روپے مالیت کا سامان ضبط

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ملک میں غیر قانونی اسپیکٹرم میں دہشتگردی پنپ رہی ہے اور ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ اس غیر قانونی اسپیکٹرم کا خاتمہ کرنا ہے کیوں کہ اس میں غیرقانونی معیشت چھپی ہے۔

نان کسٹم پیڈ گاڑیاں دہشتگردی میں استعمال ہوتی ہیں

ڈی جی آئی ایس پی آر نےغیر قانونی اسپیکٹرم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ ملک میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں؟ یہ اس غیرقانونی اسپیکٹرم کا پارٹ ہیں، جس میں اربوں روپے کا کاروبار ہورہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہی نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ذریعے دہشتگرد بھی اپنی کارروائیاں کرتے ہیں، کیا کسی ملک میں یا اضلاع میں یہ گاڑیاں عام حالات میں بغیرکاغذ کے چل سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: اسمگلنگ کی روک تھام میں غفلت پر وزیراعظم کا چاغی انتظامی مشنری تبدیل کرنے کا حکم

انہوں نے سوال کیا کہ اس کاکسی کوکوئی پتا نہیں ہے کہ گاڑی کے آگے نمبرکیا لگا ہے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشتگرد بھی کارروائیاں کرتے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ بے نامی پراپرٹی، بے نامے اکاؤنٹس کیا اس غیرقانونی اسپیکٹرم کا حصہ نہیں ہیں؟ اگرملک ان چیزوں کو برداشت کرے گا توپھر اس کے ذریعے دہشتگردی  بھی آپریٹ ہو گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ افغانستان سرحد کے ساتھ 6 ممالک کے بارڈر لگتے ہیں۔ ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، چین اور ایران شامل ہیں۔

افغانوں کو محض شناختی کارڈ دکھا کر پاکستان میں داخلے کی اجازت کیوں ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ترک، تاجک اور ازبک بھی رہتے ہیں یہ لوگ باقی ملکوں میں تو پاسپورٹ لے کر داخل ہوتے ہیں، ان ممالک میں داخل ہونے کے لیے ویزہ سسٹم ہے، تو پھریہ لوگ ہماری سرحد پرمحض شناختی کارڈ دکھا کیوں اندرچلے آئیں، ان لوگوں نے پاکستان کو ایک سافٹ بارڈررکھا ہوا ہے وہ اس لیے کیونکہ ہم غیرقانونی اسپیکٹرم کو سہولت فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2023 میں ایل سیزکو کم کیا گیا کیونکہ ملک میں ڈالرز کی قلت تھی، توافغان ٹرانزٹ ٹریڈ یکدم سے اربوں ڈالر بڑھ گئی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں جو سامان جاتا ہے، وہ ہماری مارکیٹوں میں بکتا ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے صرف تیل کی اسمگلنگ سے حاصل کیے جاتے ہیں

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے صرف تیل کی اسمگلنگ سے حاصل کیے جاتے ہیں اس کے علاوہ  50 سے 60 فیصد غیر قانونی سگریٹ بکتے ہیں، ایک مافیا ہے جو اس سے اربوں روپے کمائی کرتا ہے؟

انہوں نے کہا کہ ستمبر سے اب تک ہم ایک ہزارٹن سے زیادہ غیرقانونی منشیات پکڑ چکے ہیں، اس میں بڑی مقدارافغانستان سے آرہی ہے، اس میں بھی اربوں روپے کمائے جاتے ہیں، تو یہ جوغیرقانونی اسپیکٹرم ہے، اس کی ایک بڑی وجہ سافٹ اسٹیٹ ہے اور اس کا حل نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہا کہ اگرآپ غیرقانونی اسپیکٹرم کو کم کریں گے، تو پھرمعیشت بہتر نہیں ہوگی؟ یہ صرف دہشت گردی کا علاج تو نہیں ہے، مزید کہا کہ اس میں ذاتی مفادات ہیں، جو اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتے اور وہ بہت سارا پیسہ بنا رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ غیر قانونی سپیکٹرم کی ضرورت ایک ’سافٹ ریاست’ ہے اور اس کا حل نیشنل ایکشن پلان ہے، انہوں نے مزید کہا کہ غیر قانونی اسپیکٹرم کو ختم کرنے سے صرف دہشتگردی کو روکنے کے بجائے مجموعی طور پر معاشرتی فوائد حاصل ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘مفاد پرست شخص نہیں چاہتا کہ ایسا ہو کیونکہ وہ اس سے بہت پیسہ کما رہے ہیں۔

چمن میں احتجاج کا مقصد اسمگلنگ کی اجازت دینا تھا

انہوں نے کہا کہ ابھی چمن میں تجارت پر ریاست نے کہا کہ ہم اس پر ون ڈاکومنٹ رجیم (پاسپورٹ) لگائیں گے، تو وہاں پرذاتی مفادات حاصل کرنے والے متحرک ہو گئے، وہاں پراحتجاج شروع کر دیا گیا، ایف سی والوں کو پتھرمارے گئے، انسانی حقوق کی تنظیمیں سامنے آگئیں اور ایک ہی مطالبہ کیا گیا کہ ہمیں اسمگلنگ کرنے دی جائے، یہاں مافیا اربوں روپے کی رقم لگاتا ہے اوراس رقم کو ڈالروں میں باہر لے جاتے ہیں، اس سے معیشت کواورزیادہ نقصان ہوتا ہے۔

آپریشن عزم استحکام پر عمل کیا جائے تو قومی ترقی ممکن ہے

انہوں نے کہا کہ اگر آپریشن عزم استحکام پر مناسب طریقے سے عمل کیا جائے تو اس سے نہ صرف دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا بلکہ سماجی اور قومی ترقی بھی ممکن ہوگی۔

ہفتے کے آخر میں بنوں میں امن ریلی کے دوران تشدد اور سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بنوں چھاؤنی پر ہونے والے دہشتگرد حملے کا ذکر کیا جس میں 8 فوجی جوان شہید ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ مقامی لوگوں نے اس حملے کے بعد اگلے روز امن مارچ کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ریاست مخالف نعرے نہیں لگائے جائیں گے۔ لیکن جب امن مارچ شروع ہوا تو کچھ مخصوص منفی عناصر اس میں شامل ہو گئے۔

امن ریلی میں فوج اور ریاست کے خلاف نعرے لگائے گئے

انہوں نے کہا کہ ریلی نے دہشتگردانہ حملے کے مقام سے مارچ کیا اور ’فوج اور ریاست کے خلاف نعرے لگائے اور پتھراؤ کیا‘، انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مسلح افراد پہلے ہی مارچ کا حصہ تھے ’جنہوں نے فائرنگ کی جس کی وجہ سے لوگ زخمی ہوئے‘۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ایک عارضی دیوار کو بھی توڑ دیا گیا اور سپلائی ڈپو کو بھی لوٹ لیا گیا۔

’ اس طرح اس حوالے سے فوج کا جواب ایس او پی (اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر) اور احکامات کے مطابق تھا۔ جب 9 مئی کا واقعہ پیش آیا تو ایک مخصوص سیاسی گروپ، افراتفری پھیلانے والا ہجوم، پراپیگنڈہ کرنے لگا کہ فوج نے انہیں کیوں نہیں روکا؟۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فوج کا نظام بہت واضح ہے، اگر ملک میں فوج طلب کی جاتی ہے تو اس حوالے ہدایات واضح ہیں افسران خود اس کے مطابق کام کرتے ہیں۔

توڑ پھوڑ کرنے والے فسادی ہجوم کو پہلے وارننگ دی جاتی ہے

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی فوجی تنصیب پر’ افراتفری پھیلانے والا کوئی فسادی ہجوم‘ توڑ پھوڑ کرتا ہے تو پہلے اسے واضح وارننگ دی جاتی ہے، پھر ہوائی فائرنگ کی جاتی ہے اور ’ اگر پھر بھی وہ گروہ نہیں رکتا ہے تو اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے جیسا ہونا چاہیے۔‘ ڈی جی احمد نے کہا کہ اس طرح سیکیورٹی فورسز نے مذکورہ کوڈ کے مطابق ہوائی فائرنگ کی۔

عدالتی نظام 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو ڈھیل دے رہا ہے، جس سے فسطائیت پھیلے گی

ان کا کہنا تھا کہ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ یہ کیوں ہوا؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟ یہ اس لیے ہوا کیونکہ یہاں کا ایک عدالتی نظام ہے، جو 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو ڈھیل دے رہا ہے، ان کو کیفر کرداد تک نہیں پہنچائے گا تو ملک میں انتشار، فسطائیت مزید پھیلے گی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ فسادات پر قابو پانا اور امن وامان کی ذمہ داری فوج کی نہیں بلکہ صوبائی حکومتوں کی ہے۔ شرپسند عناصر بھیڑ میں شامل ہو کر فائرنگ کرتے ہیں اور لوگوں کو قتل کرتے ہیں، لہٰذا یہ ذمہ داری صوبائی حکومت اور انتظامیہ کی ہے۔ لہٰذا اس کا کوئی مطلب نہیں کہ ایک سیاسی جماعت اپنی ہی صوبائی حکومت کے خلاف کیا احتجاج کر رہی ہو؟

ڈیجیٹل دہشتگرد زمینی دہشتگردوں کی حمایت کر رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ جیسے ہی یہ واقعہ پیش آیا سوشل میڈیا پر شور مچ گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دہشتگرد کس طرح زمین پر دہشتگردوں کی حمایت کر رہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ احتجاج ضرور ہونا چاہیے اور قوم کو دہشتگردی کے واقعات پر اپنے غصے کا اظہار کرنے کا حق ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مفتی نور ولی محسود کی مبینہ آڈیو لیک کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال کیا کہ عسکریت پسند کس برانڈ کے اسلام کی تبلیغ کر رہا ہے جو اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں اور گھروں کو دھماکے سے اڑانے کی بات کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں دہشتگردی، کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کی خفیہ کال پکڑی گئی

انہوں نے مزید کہا کہ ’ اس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا،‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی چیزیں ’ہمارے اس عزم کو مضبوط کرتی ہیں کہ آپریشن عزم استحکام انتہائی ضروری ہے‘۔

تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے میں کسی ادارے کاکوئی ہاتھ نہیں

تحریک لبیک پاکستان کے حالیہ دھرنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس کی بنیادی وجہ فلسطین ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم اور حساس مسئلہ ہے۔ یہ واضح ہونا چاہیے کہ فلسطین کے مسئلے پر ریاست اور فوج کا واضح مؤقف ہے کہ ’یہ نسل کشی ہے اور ناقابل قبول ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے فلسطین کو 1100 ٹن سے زیادہ امداد بھیجی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اور ادارے عوام کی حساسیت اور جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ مسئلہ فلسطین سے متعلق ہے۔

انہوں نے دھرنے میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کل اگر جماعت اسلامی اسلام آباد میں دھرنا دیتی ہے تو بھی لوگ یہ دعویٰ کریں گے کہ اس کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہے۔

مزید پڑھیں: فوج اور اداروں کے خلاف منظم سازش کی جارہی ہے، ان کے دماغ میں 9 مئی جیسا ایک اور پلان ہے: عظمیٰ بخاری

ڈی جی شریف نے کہا کہ اس دوران جعلی خبریں اور پروپیگنڈا شروع ہو گیا کہ انہیں (ٹی ایل پی) کسی ادارے نے ہی یہاں لایا ہے۔ کس مقصد کے لیے؟‘

انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہر دوسرے احتجاج کے لیے فوج کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے جعلی خبریں اور پروپیگنڈا اتنا عام ہو گیا ہے کہ اس کا کوئی احتساب نہیں ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال اٹھایا کہ کیا تحریک لبیک کے دھرنے کو توڑنے کے لیے طاقت کے استعمال سے سب کو یقین ہوتا کہ فوج اس کے پیچھے نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ’ہم اس طرح کی منفی سوچ میں پھنس گئے ہیں کہ ہم ہر طرح کے سازشی نظریات کے ساتھ سامنے آتے ہیں‘۔

سوشل میڈیا پر فوج اور اس کی قیادت کے خلاف تنقید اور بیانیے کے بارے میں پوچھے جانے پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ڈیجیٹل دہشتگردی ہے۔

فوج کے خلاف ڈیجیٹل دہشتگردی ہو رہی ہے

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل دہشتگردوں نے عام دہشتگردوں کی طرح معاشرے پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے موبائل فون، کمپیوٹر، جھوٹ اور پروپیگنڈے کے اوزار استعمال کیے ہیں اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سوشل میڈیا پرفوج اوراس کی قیادت کے خلاف جوپروپیگنڈا ہورہا ہے یہ ڈیجیٹل دہشتگردی ہے، جس طرح دہشتگرد بم پھینکتا ہے تو ڈیجیٹل دہشتگرد جھوٹ، فیک نیوز کے ذریعے اضطراب پھیلا کے اپنی مرضی مسلط کرتا ہے۔

سوشل میڈیا کے ان دہشتگردوں کا تو کبھی پتا بھی نہیں چلتا، بے نامی اکاؤنٹس ہوتے ہیں، ان کے تانے بانے کہاں سے مل رہے ہیں، کچھ پتہ نہیں چلتا لیکن اتنا معلوم ہے کہ دونوں کا ہدف صرف فوج ہے، جو خارجی دہشتگرد ہے وہ بھی اور ڈیجیٹل دہشتگرد بھی فوج کو نشانہ بنا رہیں ہیں، دونوں کا کام ایک جیسا ہی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ خارجی دہشتگردوں کو تو آپریشن کے ذریعے نیوٹرلائز کرتے ہیں اور ڈیجیٹل دہشتگرد کو قانون کے ذریعے روکا جاتا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں فوج کے خلاف بیہودہ پوسٹیں اور جعلی خبریں جاری کی گئیں، لیکن پوچھتا ہوں اس سال ان فیک نیوز پر کتنی کارروائیاں کی گئیں ؟

ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال اٹھایا کہ ریاست کی قیادت اور دیگر اداروں کے خلاف سرگرمیوں کے باوجود ایسے افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عدالتوں اور قوانین کے ان کے خلاف کارروائی کے بجائے انہیں مزید جگہ دی جاتی ہے اور انہیں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ہیرو بنا دیا جاتا ہے۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ چند دنوں میں ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے پاکستان نے کابل پر زور دیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو لگام دے۔ گزشتہ ہفتے بنوں چھاؤنی پر دہشتگردوں کے حملے کو سیکیورٹی فورسز نے ناکام بنا دیا تھا تاہم اس میں پاک فوج کے 8 جوان شہید ہو گئے تھے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق دہشتگردوں نے 15 جولائی کی علی الصبح حملہ کیا تاہم سیکیورٹی فورسز نے ان کی چھاؤنی میں داخل ہونے کی کوشش کو مؤثر طریقے سے ناکام بنا دیا تھا۔ احاطے میں داخل ہونے میں ناکامی کے بعد عسکریت پسندوں نے دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی چھاؤنی کی احاطے کی دیوار سے ٹکرا دی۔

پاک فوج کے ترجمان کے مطابق یہ حملہ افغانستان سے سرگرم حافظ گل بہادر گروپ نے کیا تھا اور اس نے ماضی میں بھی پاکستان کے اندر دہشتگرد حملوں کے لیے پڑوسی ملک کی سرزمین استعمال کی ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا تھا کہ سیکیورٹی فورسز ملک کو دہشتگردی کی لعنت سے بچانے کے عزم کا اعادہ کرتی ہیں اور افغانستان سے پیدا ہونے والے ان خطرات کے خلاف تمام ضروری اقدامات اٹھائیں گی۔

بنوں میں حملے کے ایک روز بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے کیری شاموزئی میں رورل ہیلتھ سینٹر (آر ایچ سی) پر دہشتگردوں کے حملے میں سیکیورٹی فورسز کے 2 جوان اور بچوں سمیت 5 شہری شہید ہوگئے تھے۔

گزشتہ ماہ حکومت نے ملک میں حالیہ مہینوں میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے حملوں کی روشنی میں انسداد دہشتگردی کے خلاف آپریشن’عزم استحکام‘شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp