پاکستان کی سیاست کے دو بڑے کھلاڑی نواز شریف اور عمران خان ، ماضی کے کرکٹر رہے ہیں،خان صاحب کی وجہ شہرت سیاست سے زیادہ کرکٹ رہی اور نواز شریف کی کرکٹ سے زیادہ سیاست۔
عمران کرکٹ کے کامیاب ترین کپتانوں میں شمار ہوتے ہیں تو نواز شریف سیاست کے،دنوں کے کھیل میں فرق اتنا ہے کہ ایک فاسٹ باولر رہا ہے اور ایک بیٹسمین،نئی اصطلاح میں بیٹر،کرکٹ میں فاسٹ باولر کا ایک بڑا ہتھیار اس کا جارحانہ پن ہوتا ہے، وکٹ نہ مل رہی ہو تو وہ غصہ دکھاتا ہے۔
مدمقابل بیٹنگ کرنے والے کو گھورتا ہے ،اس کے لئے برے الفاظ استعمال کرتا ہے،گالی بھی دے ڈالتا ہے، مقصد ہوتا ہے کہ بیٹنگ کرنے والا بھی غصے میں آجائے، کوئی غلطی کردے اور اپنی وکٹ گنوا بیٹھے لیکن اگر سامنے والا بیٹر اس کی چال میں نہ آئے تو یہ مزید غصے میں آکراور زور لگانا شروع کردیتا ہے اور اپنی ہی لائن اور لینتھ خراب کر بیٹھتا ہے ، کبھی نو کبھی وائیڈ بال کردیتا ہے،یا پھر باونسر اور یارکر کی کوشش میں شارٹ پچ اور فل ٹاس باولنگ کرانے لگتا ہے، مخالف بیٹر کے لئے کھیلنا اور رنز بنانا آسان بنا دیتا ہے۔
باولر کے برعکس بیٹرعموماً دھیمے مزاج کے ہوتے ہیں ۔ اچھا بیٹر کبھی باولر کے اکسانے پر غصے میں نہیں آتا اگر وکٹ مشکل ہو تو یہ دفاعی حکمت عملی اختیار کرلیتا ہے ،باہر جاتی گیندیں چھوڑ کر، وکٹ میں آنے والے گیند کو روک کر، باونسر پر بیٹھ کر اپنی وکٹ بچاتا ہے اور پچ کے سازگار ہونے کا انتظار کرتا ہے اور جب وکٹ کھیلنے کے لئے آسان ہوجاتی ہے تو پھر یہ اپنی مرضی کی شارٹس کھیلتا اور بڑا سکور کرنے کی کوشش کرتا ہے،ایسا بیٹرز ہی ہمیشہ لمبی اننگز کا کھلاڑی ہوتا۔
عمران خان اپنی سیاست میں بھی ہمیشہ ایک فاسٹ باولر کی طرح جارحانہ موڈ میں رہے تیزرفتاری کے ساتھ موقف بدلے، کبھی پرویز مشرف کا ساتھ دیا کبھی اس کی مخالف جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہر قسم کی گیند بازی کے باوجود کامیابی نہیں مل رہی تھی بالآخر 2011 کے بعد انہیں پچ سے مدد ملنا شروع ہوگئی اورانہوں نے پت جھڑ کے پتوں کی طرح مخالفین کی وکٹیں گرانا شروع کردیں،اس کے باوجود وہ 2013 کا انتخابی میچ بھاری مارجن سے ہار گئے۔
سپورٹس مین سپرٹ کا مظاہرہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے ہار تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اپنے کھلاڑیوں کے ساتھ پچ پر ہی دھرنا دے کر بیٹھ گئے۔
دوسری جانب وکٹ پر ٹھنڈے مزاج کے بیٹر نواز شریف تھے۔ عمران خان نے ایک تیز رفتار باولر کی طرح انہیں غصہ دلانے کی کوشش کی،ان کے لئے برے الفاظ استعمال کرتے رہے لیکن نواز شریف غصے میں نہ آئے ناسازگار وکٹ پر انہوں نے دفاعی انداز میں کھیل کر وقت گزار، باولر کی چال میں آکر کوئی غلطی نہ کی تو باولر نے خود غلطیاں شروع کردیں اسمبلیوں سے استعفی، پارلیمنٹ، پی ٹی وی حملہ، بل جلانے ، سول نافرمانی جیسی چیزیں ان کے سکور کارڈ پر آتی چلی گئیں۔ عمران خان روزانہ ایمپائر سے آوٹ دینے کی اپیلیں کرتے رہے لیکن ایمپائر کی انگلی کھڑی نہ ہوئی اور بالآخر تھک ہار کر انہیں اپنا باؤلنگ سپیل ختم کرنا پڑا۔
سال 2018 کے انتخابی میچ میں کامیابی کے بعد بھی خان صاحب کو انتہائی سازگاروکٹ کھیلنے کو ملی،ایسی وکٹ جیسے بیٹرز کی جنت کہا جاتا ہے،جہاں آسانی کے ساتھ لمبی اننگز کھیلتے ہوئے بڑا سکور کیا جاسکتا تھا لیکن انکی طبیعت کا جارحانہ پن آڑے آگیا۔
ٹائمنگ کے ساتھ گیپ میں شارٹس کھیل کر سکور بنانے کی بجائے انہوں نے اپنی شارٹس کا نشانہ مخالف ٹیم کے فیلڈرز کو ہی بنائے رکھا نتیجہ یہ نکلا کہ نہ ہی وہ بڑا سکور بنا پائِے ،نہ اپنی اننگز مکمل کر سکے اور خود ہی کیچ دیکر وکٹ بھی گنوا بیٹھے۔
لیکن ایک بار پھر خان صاحب نے سپورٹس میں سپرٹ نہ دکھائی اور جیسے گلی محلوں میں کوئی بچہ اپنے آوٹ ہونے پر کسی کو کھیلنے نہیں دیتا ایسا ہی کچھ خان صاحب نے کیا پہلے خود کو آوٹ ہی نہ مانا پھر اپنے آوٹ ہونے پر کبھی ایمپائر کو ذمہ دار ٹھہرایا، کبھی باہر بیٹھے تماشائیوں میں کسی کو لتاڑ ڈالا.
شکست کو تسلیم کرنے کی بجائے طرح طرح کے جواز دیتے ہوئے میچ دوبارہ کرانے کی ضد شروع کردی اور غصے میں ایک بار پھر پہلے والی غلطیاں دھرانا شروع کردیں ویسے ہی دھرنے وہی اسمبلیوں سے استعفے، اور میدان سے ہی نکل گئے اور خود ہی ایک تماشائی کی حیثیت اختیار کرلی۔
میچ میں انتہائی ناسازگار وکٹ پر بھی انہوں نے اپنی لائن اینڈ لینتھ برقرار رکھی اور موقع ملتے ہی مخالف کھلاڑی کی وکٹ اڑادی اور میچ اپنے ہاتھ میں لے آئے۔
عمران خان نے سیاست کو کھیل ہی کی طرح کھیلا اور نواز شریف نے ان کے اس کھیل کو سیاست کے ساتھ،میدان سیاست کا ہو یا کھیل کا،جلد بازی ،بے صبری اور جارحانہ پن ہمیشہ غلطی کراڈالتا ہے،جبکہ تہمل مزاجی اور سوچ سمجھ کر حکمت عملی بنانا ہی فائیٹ بیک اور لمبی اننگز کی بنیاد بنتا ہے،،یہی بڑا فرق ہے عمران خان کے “کھیل” اور نواز شریف کی “سیاست” میں.