دنیا کے مختلف ممالک سے سیاح بڑے شوق سے گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں تاہم ان میں اور مقامی سیاحوں کے برتاؤ میں خاصا فرق ہوتا ہے۔
شاید ہی بیرون ملک سے آئے کسی سیاح نے گلگت بلتستان میں کسی قسم کی غیر اخلاقی حرکت کی ہو کم از کم ایسی کوئی بات رپورٹ تو بالکل نہیں ہوئی جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بیرون ملک سے انے والے سیاح گلگت بلتستان آنے سے پہلے وہاں کے کلچر، رہن سہن، روایات، موسم اور دیگر ضروری معلومات سے آگاہ ہونے کے بعد ہی وہاں کے لیے رخت سفر باندھتے ہیں جبکہ دوسری جانب اندورن ملک سے آنے والے سیاح بغیر کسی تیاری کے سفر پر نکل پڑتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سیاح گلگت بلتستان کے علاقوں میں سفر کس وقت کریں؟
تعلیم، تہذیب و تمدن، رہن سہن، کلچر، رسم و رواج، زبان الغرض ہر لحاظ سے گلگت بلتستان پاکستان کے تمام صوبوں کی نسبت قدرے مختلف ہے۔
معیار تعلیم، رہن سہن اور برتاؤ کے لحاظ سے گلگت بلتستان کے گاؤں دیہات میں رہنے والے لوگ ان سے قدرے مختلف ہیں جو ملک کے دیگر گاؤں یا چھوٹے شہروں میں رہتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم پاکستان کے مختلف حصوں سے آنے والے افراد کا تذکرہ کریں ہم ان سیاحوں کا جائزہ لیتے ہیں جو بیرونی ممالک سے یہاں گھومنے پھرنے آتے ہیں۔
غیر ملکی سیاح مکمل تیاری کے ساتھ آتے ہیں
غیر ملکی سیاح سب سے پہلے گلگت بلتستان کے حوالے سے معلومات حاصل کرتے ہیں کہ اس وقت وہاں کا موسم کیسا ہے اور اگر انہیں ٹریکنک یا کوہ پیمائی کرنی ہے تو اسی حساب سے اپنے ساتھ سازوسامان لاتے ہیں۔
غیر ملکی خواتین مقامی روایات کا پاس رکھتی ہیں
غیر ملکی خواتین جنہوں نے کبھی زندگی میں کبھی شلوار قمیض نہ بھی پہنی ہو وہ گلگت بلتستان کے کلچر کے مطابق شلوار قمیض زیب تن کرتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر دوپٹہ بھی اوڑھے رہتی ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ غیرملکی خواتین نے اگر شلوار قمیض نہ پہنی ہو تو انہیں وہاں کسی روک ٹو ک کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن پھر بھی وہ وہان کی روایات کا پاس رکھتی ہیں۔
زیادہ تر ملکی سیاح ’جیسا دیس ویسا بھیس‘ کے قائل نہیں
اس کے برخلاف اگر دیکھا جائے تو ملک کے دیگر شہروں سے انے والے سیاح ملک کا لباس چھوڑ کر انگریزوں کے لباس میں گلگت بلتستان آتے ہیں اور بسا اوقات مقامی افراد انہیں دیکھ کر کنفیوز بھی ہوجاتے ہیں کہ آیا وہ پاکستانی ہیں یا غیرملکی۔ الغرض ہمارے لوگ جیسا دیس ویسا بھیس کا کوئی خاص خیال نہیں رکھتے۔
کچھ ملکی سیاحوں کی جانب سے گھروں میں تانکا جھانکی تکلیف دہ ہوتی ہے
دوسری اہم بات یہ ہے کہ غیر ملکی سیاح کبھی کسی رہائشی علاقوں میں جاتے ہیں تو پہلے وہاں کے لوگوں سے اجازت لیتے ہیں اور اجازت نہ ملنے کی صورت میں کوئی زور زبردستی نہیں کرتے بلکہ تمیز سے شکریہ ادا کرکے واپس چلے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ملک سے آنے والوں کی ایک بڑی تعداد گھروں میں تانک جھانک سے بھی باز نہیں آتی اور وہ یہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ بلاوجہ لوگوں کے گھروں میں گھس کر ان سے باتیں کرنا شروع کردیں۔
بغیر اجازت مقامی افراد کے باغات چٹ کرنا
تیسری اہم بات یہ ہے کہ اکثر غیر ملکی سیاح کسی سے کوئی چیز نہیں لیتے ہیں اور نہ ہی مقامی لوگوں کی طرف سے پیش کیے گئے تحفے قبول کرتے ہیں جبکہ اس کے برخلاف ملکی سیاح راستے میں جہاں کہیں فروٹ دیکھ لیں تو ایک تو انہیں بغیر اجازت کھا لیتے ہیں بلکہ پھلوں کو ٹہنیوں سمیت توڑ کر بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔
مزید پڑھیے: گلگت بلتستان: بے ہنگم تعمیرات سے جنت نظیر خطے کی خوبصورتی ماند پڑنے لگی
ان کی اس بات کے خلاف سوشل میڈیا پر اکثر مقامی افراد کی جانب سے شکایت بھی کی جاتی ہے بلکہ کچھ تو ایسے سیاحوں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔
شور شرابہ، بلند آواز میں موسیقی اور بیجا ہلہ گلہ
چوتھی بات یہ ہے کہ غیر ملکی سیاح گلگت بلتستان جب بھی آتے ہیں چاہیے وہ ٹیم کی شکل میں ہو یا اکیلے بہت ہی تمیز سے چلتے اور خوبصورت مقامات پر سکون سے بیٹھ کر قدرت کی خوبصورتی کو انجوائے کرتے ہیں اور وہاں کا سکون برباد کیے بغیر واپس لوٹ جاتے ہیں جبکہ ملکی سیاح جہاں جاتے ہیں زور زور سے باتیں کرتے ہیں اور شور شرابا اور ہلہ گلہ کرکے وہاں کا پر سکون ماحول ڈسٹرب کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں زور زور سے میوزک لگا کر علاقہ مکینوں کا بھی سکون تباہ کرتے ہیں۔
اناڑی ڈرائیونگ اور حادثات
پانچواں اہم مسئلہ ٹریفک کا ہے کیوں کہ ملکی سیاحوں کی گاڑی کہیں نہ کہیں ایکسڈنٹ کا شکار ہوجاتی ہے کیوں کہ وہ لوگ پہاڑی علاقوں کے لیے تجربہ کار ڈرائیور اپنے ساتھ نہیں لاتے اور خود بھی ٹریفک کے قوانین پر عمل درآمد نہیں کرتے اور ان کی بے ہنگم و تیز رفتاری کی وجہ سے اکثر حادثات رونما ہوجاتے ہیں۔
کچرا پھیلا کر جنت نظیر وادیوں کا حسن برباد کرنا
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ سیاحتی مقامات پر غیر ملکی سیاح گندگی اور کچرا نہیں پھیلاتے بلکہ ان جگہوں کی حفاظت کرتے ہیں جبکہ ملکی سیاحوں کی اکثریت علاقے کی خوبصورتی اور صفائی کا خیال نہیں رکھتی ہے اور ان کی جانب سے گاڑیوں سے باہر بے دھڑک کچرا پھینکنا ایک معمول کی بات ہے جس سے ان خوبصورت مقامات کا حسن گہنا جاتا ہے۔