سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل منظوری کے لیے صدر مملکت عارف علوی کو ارسال کردیا ہے۔
صدر پاکستان عارف علوی کے دستخطوں کے بعد یہ بل باقاعدہ قانون بن جائے گا جس کے بعد اس پر عملدرآمد کا آغاز ہوگا۔
عدالتی اصلاحات کے حوالے سے اس بل کی منظوری جمعرات کے روز سینیٹ کے اجلاس میں دی گئی تھی جہاں حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ پڑے تھے۔اس سے قبل یہ بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہو چکا ہے۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات کا بل سپریم کورٹ پریکٹسز اینڈ پروسیجرز ترمیمی بل 2023 بدھ کو منظور کر لیا تھا جس کی ایک شق کے مطابق بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ اب کوئی فرد واحد نہیں بلکہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز شامل ہوں گے۔
عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا تھا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی جبکہ چند آزاد اراکین نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اسے عدلیہ پر قدغن قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کا مقصد سوموٹو نوٹس کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کو انفرادی حیثیت میں حاصل اختیارات کو کم کرنا ہے۔
بل کو وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے اسپیکر راجا پرویز اشرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیا تھا۔
اس سے پہلے وفاقی حکومت نے عدالتی اصلاحات کے لیے فوری قانون سازی کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت مجوزہ بل میں از خود نوٹس کے خلاف اپیل کے حق سے متعلق قانون سازی کی جانی تھی۔ بل کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان از خود نوٹس کا اختیار تنہا استعمال نہیں کرسکیں گے۔ وزیرقانون کی سربراہی میں قانونی ماہرین نے تجاویز کو حتمی شکل دی گئی۔
اس حوالے سے وفاقی کابینہ کا فوری اجلاس بھی منعقد کیا گیا تھا جس میں ان مجوزہ قوانین کی منظوری لی گئی اور پھر اسے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا جو بھاری اکثریت سے منظور ہوگیا۔ جمعرات کو یہ سینیٹ نے بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ بل کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے۔
صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ اجلاس میں اپوزیشن کے سینیٹرز نے ڈائس کے سامنے پہنچ کر عدلیہ کی حمایت میں نعرے لگانے کے علاوہ بل کی کاپیاں بھی پھاڑ دی تھیں۔
اس دوران سینیٹ میں تعینات سیکیورٹی اہلکاروں نے حکومتی اور اپوزیشن بینچز کے درمیان حصار بنالیا تھا جس کے بعد بل کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔
یہ بھی یاد رہے کہ بدھ کے روز اپنے ایک انٹرویو میں صدر مملکت عارف علوی کا کہنا تھا کہ جمہوری طاقتوں کی لڑائی میں ہمیشہ خطرہ رہتا ہے اور میں نے ابھی عدالتی اصلاحات سے متعلق بل دیکھا نہیں ہے اس لیے اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قابل از وقت ہوگا کہ میں کیا فیصلہ کرتا ہوں۔