پیٹ کی بھوک نے مجھے نوبیل انعام دلوایا

جمعرات 25 جولائی 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کہا جاتا ہے کہ فکشن نگارزیادہ تر اپنے پچپن اور نوجوانی کی یادوں اورمشاہدات کے بارے میں ہی لکھتا ہے۔ کچھ مصنفین کوتو بچپن میں بہت ہی نامساعدحالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کا اظہار وہ آپ بیتی یا انٹرویوز میں کرتے ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ ناول نگار اور افسانہ نگار مویان چین کے معروف ترین نثر نگار ہیں۔ ناقدین انھیں’ کافکا‘ کی چینی صورت قرار دیتے ہیں۔ ان کا بچپن بھی مشکلات سے پُرتھا۔ وہ اپنے انٹرویوزکے دوران اس زمانے کو اکثر یادکرتے ہیں۔

1955 میں شندونگ میں ایک غریب کسان گھرانے میں پیدا ہونے والے مویان اپنے بچپن کے ابتدائی دنوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ، ’’ میں شندونگ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا، میرے والد ایک پڑھے لکھے آدمی تھے۔ انھوں نے گاؤں کے نجی سکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ سب مصنفین لکھنے کا آغاز اپنے بچپن کی یادوں سے کرتے ہیں۔ میں نے جس وقت ان یادوں کو مرتب کرنا شروع کیا، وہ چین کی تاریخ کا مشکل ترین دور تھا۔ زیادہ تر لوگ بھوکے تھے۔ لوگ مشکل زندگی بسر کرر ہے تھے، بھوک سے مر رہے تھے، حتیٰ کہ میرے گاؤں میں بھی یہی عالم تھا۔ میرے خیال میں ایسے ادوار کی بچپن کی یادیں بہت اہم ہوتی ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گاؤں میں کئی بچے تھے۔ جب سردیوں میں سورج نکلتا، ہم دیوار کے ساتھ بیٹھ جاتے اور دھوپ میں نہاتے۔ ہمارے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے۔ ہم بمشکل خود کو ڈھانپ پاتے تھے۔ نمکیات کی کمی کی وجہ سے ہمارے معدے خراب تھے۔ ہمارے بازو اور ٹانگیں پتلی تھیں، بالکل فاقہ زدہ بچوں کی طرح۔ میں جب پرائمری میں تھا تو بہت شرارتی تھا۔ پھر مجھے پانچویں میں سکول سے نکال دیا گیالیکن میں بڑوں کے کاموں میں شامل نہ ہو سکتا تھا کیونکہ مجھ میں کام کی صلاحیت نہ تھی۔ سو میں اکیلا مویشی اور بھیڑیں چرانے لگا۔ اس طرح کے تنہائی زدہ ماحول میں بات کرنے کے لیے میرے ساتھ صرف مویشی اور درخت ہوتے تھے۔ میرے خیال میں میرا بچپن بہت منفرد تھا۔ جب میں نے لکھنا شروع کیا، تو میرے بچپن کی ہر بات مجھے یاد آگئی، سو میں نے ان یادوں کو زندگی کے خیالات اور واقعات کے ساتھ جوڑ کر ناول لکھے۔ ‘‘

اس وقت کے چین کے حالات کا اندازہ لگانے کے لیے بھی ان کے بچپن کی یادوں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، ’’میرا خاندانی پس منظر کچھ ایسا قابل رشک نہ تھا۔ ہمارے جیسے بچے سکول جا سکتے تھے لیکن اگر وہ اچھے ہوں، اچھے نہ ہونے سے میری مراد ہے اگر انھیں اساتذہ پسند نہ کریں تو پھرآپ محروم رہ جاتے اور تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ سکول میں اس وقت زیادہ نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ ہم زبان کی کلاس میں چئیرمین ماؤ کے اقوال پڑھتے تھے۔ ریاضی اور دوسری کلاسوں میں طالب علم اکثرباغی ہوجاتے تھے۔ وہ روزانہ آپس میں لڑتے جھگڑتے۔ میرے والدین نے یہ محسوس کیا کہ میں پڑھ نہیں سکتا۔ سو جب مجھے سکول سے نکالا گیا توانھوں نے میرے داخلے کے لیے کوئی زیادہ کوشش نہیں کی اور مجھے بھی اس طرح کے سکول میں جانے کی زیادہ پرواہ نہ تھی، سو میں نے بہت جلدی سکول چھوڑ دیا۔ میری عمر اس وقت 11 برس تھی۔ ‘‘

تنہائی اورغربت نے عالمی ادب کو کیسا شاندار ناول نگار دیا، مویان اس بارے میں بتاتے ہیں کہ، ’’مجھے بہت تنہائی محسوس ہوئی۔ سب بچے مل جل کر گھومتے پھرتے تھے۔ میرے گاؤں کے سب بچے سکول جاتے تھے۔ انھوں نے شایدوہاں سے زیادہ نہ سیکھا ہو لیکن انھوں نے خوب لڑائی جھگڑے کیے اور لطف اندوز ہوئے۔ میں جو بچپن میں مویشی چرا رہا تھا، مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ میرا مستقبل کیا ہو گا۔ میں سوچتا تھا کہ کیا میں کبھی اس کے علاوہ کچھ کرپاؤں گا؟ میرا مستقبل کیا ہو گا؟ جب میں بڑا ہوں گا تو کیا کروں گا؟یہ سب سوچ کر مجھے مایوسی ہوتی۔

میرے بچپن کی صورت حال ہی میری تحریر کا اہم محرک ہے۔ میں نے اپنے ناولوں میں مختلف اقسام کے درختوں اور جانوروں کا ذکر کیا ہے۔ میں نے بچوں اور فطرت کے قریبی اور پراسرار رشتے کے بارے میں لکھاہے۔ یہ سب میرے ذاتی تجربوں سے الگ نہیں ہو سکتا۔ اگر میں اپنے ماضی میں جھانکوں تو سب سے پہلی اہم بات یہ ہے کہ میں سکول نہ جا سکا اور مجھے اس کا افسوس ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے ایک طرح کی خوشی بھی ہوتی ہے۔ اگر میں اس دکھ بھرے بچپن کے تجربے سے نہ گزرا ہوتا تو میں کبھی مصنف نہ بنتا۔ اگر بنتا بھی تو بالکل مختلف قسم کا، میں یقیناً مختلف قسم کی کتابیں لکھ رہا ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرح سے بچپن میں سکول سے نکلنے کے بعد کھیتی باڑی کرنے سے، فطرت کے استقبال اور دیہاتی ثقافت نے میری مدد کی۔ ‘‘

یہاں ایک دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر غربت، افلاس، نامساعد حالات، سکول نہ جا سکنا اور مال مویشی چرانا کسی کو بڑا ادیب بنا سکتا ہے تویہ ناول نگار اپنے بچوں کے بارے میں کیا یہ سب پسند کرے گا؟ اس کا جواب بھی خود انھی کی زبانی سنیے، ’’ میں اپنے بچوں کو سکول سے اس لیے نہیں نکلواؤں گا کہ وہ مصنف بنیں اور کھیتی باڑی کریں، یہ سب اس طرح نہیں ہوتا۔ وہ دردناک تجربے مجھے مصنف بنانے کا محرک ضرور بنے ہیں، لیکن اگر مجھے اپنا بچپن دوبارہ چننا پڑے تو بجائے ایک تنہا اور بھوکے بچے کے، میں خوشی کی طرف جاؤں گا۔ ‘‘

مویان کو ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ انھیں اپنی عمر سے بڑے افراد کے ساتھ بیٹھنے کا اور ان کے تجربات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ وہ عام بچوں سے اپنے تجربات مختلف ہونے کے بارے میں کہتے ہیں، ’’سکول میں پڑھنے والے بچے اور کھیتوں میں کام کرنے والے بچے کا فطرت سے رشتہ مختلف ہوتا ہے اور جانوروں اور درختوں کے حوالے سے احساسات بھی الگ ہوتے ہیں۔ دوسری طرح کا بچہ ہر وقت اپنے جیسے بچوں اور استادوں میں گھرا ہوتا ہے لیکن میں بھیڑوں، مویشیوں، پودوں، گھاس اور درختوں کے درمیان تھا۔ فطرت کے حوالے سے میرے احساسات بہت لطیف اور جذباتی ہیں۔ ایک طویل مدت تک میں یہ سوچتا رہا کہ جانور اور پودے انسانوں سے بات کرسکتے ہیں۔ اور میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے کہے کو سمجھتے ہیں، ایسا تجربہ منفرد اور قیمتی ہے۔ اس کے علاوہ میں بچوں کے ساتھ نہیں کھیلا بلکہ بڑی عمر کے لوگوںمیں اٹھا بیٹھا۔ مجھے بولنے کا حق نہیں تھا، وہ میرے بڑے تھے۔ اگر میں ان کی گفتگو میں مداخلت کرتا تو وہ ناراض ہوتے۔ لیکن میں سن سکتا تھا، میں نے بڑی عمر کے لوگوں کی زندگی کا مشاہدہ بچوں کی نسبت بہت جلد کرلیا۔ ‘‘

ان کی کہانیاں جس دیہی سماج کی جھلک دکھاتی ہیں وہ ان کے پچپن سے ماخوذ ہے۔ ’’میں نے اپنے بڑے بوڑھوں سے دیہی ثقافت کے بارے میں بہت سیکھا۔ دیہی ثقافت میں تاریخی شخصیات، عظیم لوگ، تاریخی واقعات، حتیٰ کہ دیومالائی اور فرضی کہانیاں عام ہوتی ہیں جیسا کہ ایک بھیڑیے یا مرغ کے انسان بن جانے کی کہانیاں۔ سو، لوک عناصر اور سینہ بہ سینہ روایات میری کتابوں میں ڈھل گئیں کیونکہ وہ میرے ذاتی تجربات ہیں۔ یہ ایک منفرد بات ہے کہ بچہ زندگی کو کیسے دیکھتا ہے، جب ایک بڑا اسے دیکھتا ہے تو وہ اس سے حیران نہیں ہوتا۔ لیکن جب بچہ دیکھتا ہے تو وہ اوپر کی طرف دیکھتا ہے اور اس طرح وہ بہت ساری ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو بڑے نہیں دیکھ سکتے۔ اس چیز نے میری بہت مدد کی۔ ‘‘

سال 2012 میں انھیں ادب کا سب سے بڑا اعزاز نوبیل انعام ملا۔ مویان اس حوالے سے بھی منفرد ناول نگار ہیں کہ انھوں نے مصنف بننے کا محرک اپنی بھوک کو قرار دیا، وہ ایک انٹرویو کے دوران بتاتے ہیں، ’’ میرے لکھنے کا ابتدائی محرک یہ تھا کہ میں خوشگوار زندگی گزارنا چاہتا تھا اوردن میں تین بار ڈمپلنگ کھانا چاہتا تھا۔ میرے خیال میں میرے جیسے چینی ادیب جوکسانوں کے دیہات میں پیدا ہوئے اورافلاس کے عالم میں نچلی سطح پر زندگی بسر کی، ہماری لکھنے کی ابتدائی وجہ بہت سادہ ہوتی ہے، حتیٰ کہ نچلی کہہ لیں، اس کا مقصد میز پر کھانے کا موجودہوناہوتا ہے، اپنے حالات بدلنا اور انھیں بہتر بناناہوتا ہے۔ قلم اٹھانے کے دراصل کئی مادی فوائد ہیں۔ میرے گاؤں کے بڑے بزرگوں میں سے ایک مجھے بتایا کرتا تھا کہ وہ ایک مصنف کو جانتا ہے جو پر آسائش زندگی گزارتا ہے اوردن میں تین بار ڈمپلنگ کھاتا ہے۔ میں نے سوچا، میرے جیسے خاندان سے تعلق رکھنے والے لوگ صرف بہار کے میلے میں ڈمپلنگ کھاتے تھے، سال میں ایک دو بار۔ لیکن کوئی ایسا بھی تھا جو روزانہ تین بار ڈمپلنگ کھاتاتھا، مجھے اس بات پر یقین نہیں آتا تھا۔ ہم تو کسی بادشاہ کے بارے میں بھی ایسی زندگی کا تصور نہیں کر سکتے تھے، سو میں نے اس سے پوچھا، اگر میں کتابیں لکھوں تو کیامیں بھی ایسی زندگی گزار سکتا ہوں، اس نے کہا کیوں نہیں۔ آج میں تین بار ڈمپلنگ کھاتا ہوں، حتیٰ کہ رات گئے، میں فرج سے کچھ نکالتا ہوں اور پکا لیتا ہوں۔ سو آج میرے مقاصد اس ابتدائی زمانے کے برعکس تبدیل ہو گئے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp