مہنگے برانڈڈ کپڑے کیسے مناسب ریٹس پر خریدے جا سکتے ہیں؟

اتوار 28 جولائی 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں لیفٹ اوور برانڈڈ کپڑوں، جوتوں اور جیولری کی مانگ میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ان تک عام آدمی کی پہنچ ممکن، سستی اور آسان بنا دی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:خواتین کے استعمال شدہ برانڈڈ سوٹ اب مناسب قیمت پر دستیاب مگر۔۔۔!

وی نیوز نے لیفٹ اوور برانڈڈ اشیا سے متعلق ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی ہے جس میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ سوشل میڈیا پر لیفٹ اوور برانڈڈ کپڑوں، جوتوں، جیولری اور پرس وغیرہ کی خرید و فروخت کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملک بھر سے خاص طور پر سینکڑوں کی تعداد میں خواتین سیلرز فیس بک اور انسٹاگرام پر لیفٹ اوور برانڈڈ اشیا کی فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں اور آن لائن فروخت سے مہینے میں لاکھوں روپے کما رہی ہیں۔ یہ خواتین نہایت ہی مناسب داموں میں پاکستان کے بڑے اور مشہور برانڈز کے کپڑے فروخت کرتی ہیں۔

مزید پڑھیں:جڑواں شہروں میں عید کی سستی خریداری کہاں سے ہوسکتی ہے؟

رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سوشل میڈیا پر ان لیفٹ اوور کپڑوں کی ڈیمانڈ میں اضافے کی وجہ صرف مہنگائی ہی نہیں ہے، بلکہ آؤٹ لیٹس پر برانڈز کی جانب سے قیمتوں میں حد سے زیادہ اضافہ بھی ہے۔ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو شاید قوت خرید رکھتے بھی ہیں، لیکن وہ آوٹ لیٹس پر لگے کپڑے خریدنے کو ترجیح نہیں دیتے کیوں کہ قیمتیں ان کپڑوں کے معیار سے دوگنی ہوتی ہیں۔

حرا کنول کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ ’پریٹ بائی ہانیہ‘ کے نام سے فیس بک اور یوٹیوب پیج چلاتی ہیں۔ وہ ان پیجز پر پاکستان کے ایک نامور اور مہنگے برانڈ کے کپڑے انتہائی سستے داموں فروخت کرتی ہیں۔

وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے حرا کنول نے بتایا کہ وہ 2019 سے اس کاروبار سے منسلک ہیں اور ماہانہ لاکھوں روپے کماتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے ’ شروع میں آپ کو اس کاروبار کے لیے سرمایہ چاہیے ہوتا ہے، جس کے بعد ایک سلسلہ چل پڑتا ہے، یہ کاروباران خواتین کے لیے انتہائی اچھا ہےجو گھر بیٹھ کر کمانا چاہتی ہیں۔ اس کاروبار سے وہ خواتین بھی مستفید ہو رہی ہیں، جو برانڈڈ کپڑے انتہائی مناسب قیمت پر خریدنا چاہتی ہیں۔

حرا کنول کا کہنا ہے کہ’ میں ایک ری سیلر ہوں اور میں یہ برانڈڈ کپڑے فیکٹری آوٹ لیٹ سے لیتی ہوں، چونکہ ان کپڑوں میں ایسے نقص ہوتے ہیں جو صرف مشین ہی پکڑ سکتی ہے۔

ان کاکہنا تھا کہ یہ نقائص کی وجہ سے یہ کپڑے فیکٹری سے مسترد شدہ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی قیمتیں انتہائی کم ہوتی ہیں۔ ہم جب ان کپڑوں کو ری سیلرز ’بلک‘ میں خریدتے ہیں تو یہ مزید سستے مل جاتے ہیں۔ہم اپنا منافع رکھ کر ان کپڑوں کو سیل کر رہے ہوتے ہیں، اس سے برانڈز کی آوٹ لیٹس کے مقابلے میں خریدار کو ہمارے ہاں سے بہت ہی مناسب قیمت پر یہ کپڑے مل جاتے ہی‘۔

یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد میں سردیوں کے سستے کپڑے کہاں سے مل سکتے ہیں؟

انہوں نے مزید بتایا کہ جس جوڑے کی قیمت 10 ہزار روپے ہوتی ہے، ہم وہ 4 سے 5 ہزار  میں سیل کرتے ہیں، وہ بظاہر بالکل ٹھیک ہوتا ہے، اس میں پایا جانے والا نقص ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ میرے سوشل میڈیا پر 85 ہزار فالوورز ہیں اور لوگ اب ان برانڈڈ کپڑوں کو کم قیمتوں کی وجہ سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جتنا بھی اسٹاک آتا ہے، یک دم سے ختم ہو جاتا ہے، کیونکہ خریدار بہت زیادہ ہے اس لیے ہمیشہ اسٹاک کم پڑ جاتا ہے‘۔

’کرن کلیکشن’ کے نام سے فیس بک پر برانڈڈ کپڑے فروخت کرنے والی ری سیلر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خواتین میں برانڈڈ لیفٹ اوور کپڑوں کی خریداری کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کیوںکہ ملک میں مہنگائی اس قدر بڑھتی جا رہی ہے کہ مڈل کلاس کی قوت خرید پہلے کی طرح نہیں رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں بجلی کے بل اور گھر کے اخراجات ہی پورے ہو جائیں تو بڑی بات ہے، اس لیے خواتین بہت ہی مناسب قیمتوں میں برانڈڈ ڈیزائن میں کپڑے پہن کر اپنا شوق پورا کر لیتی ہیں، ورنہ آج کے دور میں بڑے بڑے شاپنگ مالز پر جا کر برانڈڈ کپڑے خریدنے والے حالات نہیں رہے۔

مزید پڑھیں:آپ کی حفاظت ہماری ترجیح: معروف برینڈ کا کسٹمرز کو اپنے کپڑے نہ پہننے کا مشورہ

انہوں نے بتایا کہ جب بھی ان کا فیس بک پر لائیو سیشن ہوتا ہے، ہزاروں کی تعداد میں خواتین اسے جوائن کرتی ہیں، کیونکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ یہ کپڑے 100 فیصد برانڈڈ ہوتے ہیں۔ مہنگائی نے بہت سے لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا ہے اس لیے زیادہ تر خواتین اب آن لائن ہی برانڈڈ کپڑے خریدتی ہیں۔

سدرہ کامران کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ گزشتہ 2 برس سے آن لائن لیفٹ اوور برانڈڈ کپڑے خرید رہی ہیں، انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ چند برس پہلے برانڈڈ کپڑوں کی قیمتیں ایسی تھیں کہ مڈل کلاس لوگ بھی اپنا شوق آرام سے پورے کر لیتے تھے۔

لیکن اب ملک میں صرف برانڈڈ کپڑے ہی نہیں ہر چیز اتنی زیادہ مہنگی ہو گئی ہے کہ عام افراد کے لیے کھانے پینے کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے، ’برانڈڈ کپڑے کیا خریدے گا کوئی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر خاتون کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اچھے اور خوبصورت کپڑے پہنے، لیکن یہ ہر کسی کی قوت خرید میں نہیں ہیں۔ لیکن اب عام خواتین کے لیے بھی یہ اچھی بات ہے کہ وہ بھی اپنے من پسند کپڑے اپنی قوت خرید کے مطابق خرید سکتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’میں نے برانڈز کی آوٹ لیٹس پر جانا ہی چھوڑ دیا ہے اگر کہیں چلی بھی جاؤں تو صرف دیکھ لیتی ہوں کہ کونسی نئی کلیکشن آئی ہے اور پھر انسٹاگرام اور فیس بک ری سیلرز کو وہ تصاویر بھیج دیتی ہوں، ان کے پاس جیسے ہی اسٹاک میں ایسا کپڑا آتا ہے تو وہ مجھے تقریباً آدھی قیمت میں مل جاتا ہے۔

انہوں کہا کہ یوں جیب پر بوجھ پڑتا ہے اور نہ ہی شوق پر کوئی سمجھوتا کرنا پڑتا ہے، سمجھداری بھی یہی ہے کہ ٓچیز کے معیار کے مطابق پیسے خرچ کریں کیونکہ برانڈز نے تو آوٹ لیٹس پر فضول میں تباہی مچائی ہوئی ہے‘۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp