’ہمارے آباؤ اجداد ستاروں کا بہت اچھا علم رکھتے تھے۔ وہ انہیں دیکھ کر سفر کا رخ متعین کرتے، فصلیں کاشت کرتے اور دیگر کئی معاملات کا فیصلہ کرتے تھے۔ آج نہ تو ہمارے پاس وہ بنیادی علم رہا اور نہ ہی ہمیں آسمان اتنا صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہم ان ستاروں کو اپنی آنکھ سے دیکھ سکیں۔‘
یہ کہنا ہے راولپنڈی کے رہائشی یاسر علی اعوان کا جنہوں نے حال ہی میں اپنے شہر کا ایک آسٹرانومی گروپ بنایا ہے۔
وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ زندگی میں جب پہلی بار انہوں نے ٹیلی سکوپ خریدی تو وہ چوتھے ہی دن اپنے گھر کے قریبی پارک میں اسے لے کر موجود تھے۔
وہ چاہتے ہیں کہ انہیں اپنے بچپن میں ٹیلی اسکوپ خریدنے کے لیے جتنا انتظار کرنا پڑا ان کی کمیونٹی کے بچوں کو وہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ اس مقصد کے لیے وہ مہینے میں ایک دن کسی قریبی جگہ پر مفت میں آنے والوں کو ٹیلی اسکوپ سے چاند، ستاروں اور سیاروں کا مشاہدہ کراتے ہیں۔
یاسر علی کے مطابق آسٹرانومی ان کا شوق ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے بچے اس فیلڈ میں بھی آئیں۔
ویسے تو ان کی ٹیلی اسکوپ سے مشاہدہ کرنے والوں میں مرد، خواتین، بزرگ اور بچے سبھی شامل ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی سیارے یا ستارے کے مشاہدے کے بعد جو خوشی بچوں میں دکھائی دیتی ہے اس کے بعد انہیں لگتا ہے کہ ساری محنت کا صلہ مل گیا۔ان بچوں کے سوالات تو اکثر انہیں بھی سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان میں کوئی بھی ادارہ اس طرف توجہ دینے کو تیار نہیں لیکن وہ اپنی سی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مزید دیکھیے اس ویڈیو رپورٹ میں