خوشامد کو نصاب میں شامل کیا جائے

منگل 30 جولائی 2024
author image

سفیان خان

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

ہمارے ایک دوست کی خواہش ہے کہ خوشامد بھی نصاب میں شامل ہونی چاہیے۔ وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ زندگی کی شاہراہ پر سفر سہل بنانے کے لیے ہنر اور قابلیت کے ساتھ خوشامد کی بھی اشد ضرورت پڑتی ہے۔ مطالبہ یا فرمائش کچھ انوکھی تو ہے لیکن کسی حد تک درست بھی ہے۔ خیر کئی تو ایسے بھی ہیں جنہیں خوشامد کرنے کاطریقہ واردات معلوم ہی نہیں ہوتا، اسی لیے مشکلیں ہی مشکلیں راہ میں آتی رہتی ہیں۔ اگر ایسے لوگ نصاب میں خوشامد کے متعلق کچھ پڑھ سیکھ لیتے تو ان کی زندگی میں بھی بہارہی بہار ہوتی۔ ویسے آپ کا کیا خیال ہے؟ کہیں نہ کہیں آپ کی زندگی میں بھی خوشامد کا کبھی تو استعمال ہوا ہی ہوگا۔

دیکھا جائے تو خوشامد کے بغیر کئی کام نہیں ہو پاتے۔ لیکن آپ کے خوشامدی الفاظ اور انداز کی بڑی اہمیت ہے، یہی فیصلہ کریں گے کہ خوشامد کے اس مشن میں آپ پاکستانی ٹیم کی طرح پہلے راؤنڈ میں آؤٹ ہوتے ہو یا پھر گوہرِ مقصود پا لیتے ہو۔ پھر آپ دیکھیں ناں، یہ کوشش تو ہم بچپن سے ہی کرتے چلے آرہے ہیں۔ کبھی کھلونے کے لیے والدین کی خوشامد، کبھی کپڑوں کے لیے تو کبھی کسی اور کام کے لیے۔ اور جب جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو خوشامد ایک نیا روپ دھارتی ہے۔ جیسے من پسند جیون ساتھی کا دل جیتنے کے لیے پہلے اس کی خوشامد، اور جب ساتھ میسر ہوجائے تو پھر اس کا چھوٹی موٹی باتوں پر خفا ہونے کے بعد یہ خوشامد ہی ہے جو کام آتی ہے۔ مگرہمارے دوست کا کہنا ہے کہ ان سب کے باوجود خوشامد میں پھر بھی کوئی نہ کوئی کمی بیشی نہ رہ جائے، اسی لیے  اسے نصاب کا حصہ بنا کر اسے اور موثر بنایا جائے۔

خوشامد تو ویسے بھی ہمارا قومی کھیل بن چکا ہے۔ بلکہ ہمارے کئی کھیلوں میں اس کا استعمال بھی دھڑلے سے ہورہا ہے۔ ان دنوں توخیر سے کرکٹ کے تبصرہ نگاروں کے لبوں پر ’خوشامدی ٹولہ کے الفاظ تواتر سے سج رہے ہیں۔ اسی لیے خوشامد  سے مکمل آگاہی حاصل کرنا ہر کسی کا حق ہے۔

جس طرح بابراعظم کی طرح بہترین کور ڈرائیو کوئی اور نہیں کھیل پاتا ہے، اسی طرح خوشامد کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ یہ ایک آرٹ ہے۔ بعض اناڑی صائم ایوب کی طرح بغیر دیکھے خوشامد کے شارٹ کھیلتے ہیں اور نتیجتاً جلد بازی میں موقع گنوادیتے ہیں۔ یعنی آپ کومعلوم ہونا چاہیے کہ کس بال پر خوشامد کا شارٹ لگانا ہے ورنہ آپ کا حال بھی صائم ایوب والا ہی ہوگا۔

ہمارے کولیگ اسلم بھائی بے چارے خوشامد کا شارٹ تو مارتے ہیں لیکن مڈآن پر ہمیشہ آسان کیچ تھما دیتے ہیں۔ اسلم بھائی موقع محل دیکھے بغیر خوشامد کرتے ہیں جیسے ایک دن صاحب بہادر بہت غصے میں دفتر آئے اور ہر ایک کو کمرے میں بلا بلا کر کلاس لینے لگے۔ بدقسمتی سے اسلم بھائی کی بھی باری آگئی۔ تھوڑی دیر بعد کمرے سے بڑبڑاتے ہوئے نکلے۔ وجہ معلوم کی تو کہنے لگے کہ مجھ سے فلاں کام کا پوچھا جس پر میں نے خوشامد کا میزائل چلاتےہوئے کہا کہ سر جی آپ تو اتنے سیدھے اور بھولے ہیں کہ آپ کو تو غصہ کرنا بھی نہیں آتا۔ کہنے لگے کہ سر جی نے میز پر زور سے مکا مارتے ہوئے جلالی انداز میں کہا کہ تمہارا بھی یہ مطلب ہے کہ میں غصہ بھی نہیں کرسکتا۔ اسی با ت پر توصبح سویرے وائف سے جھگڑا ہوا ہے کہ میں اپنے رشتے داروں پر غصہ نہیں کرتا۔ اس کے آگے جو اسلم بھائی کی شان میں صاحب بہادر نے قصیدے پڑھے، وہ لکھے نہیں جاسکتے۔

ایسے ہی ایک دفعہ اور انہیں کھری کھری سننے کو ملی جب انہوں نے صاحب بہادر کی قمیض پر تبصرہ کرتے ہوئے خوشامد کا تیر چلایا کہ سر یہ کلر واقعی آپ پر جچتا ہے۔صاحب بہادر نےانگارہ بنتی آنکھوں اور کانٹے بنتے لبوں سے ان کے خوشامد کے تیر کو توڑ مروڑ کر پھینکتے ہوئے کہا کہ یہ شرٹ مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتی کیونکہ اس کا یہ چبھتا ہوا کلر مجھے پسند نہیں اور تم کہہ رہے ہو کہ اچھا لگتا ہے، یہ تو میں بحالت مجبوری اس لیے پہن کر آیا کیونکہ صبح سویرے بجلی چلی گئی تھی اور یہی شرٹ الماری میں لٹکی تھی۔ اسلم بھائی نے پینترا بدلتے ہوئے کہا سر میں تو سوال کررہا ہوں کہ یہ کلر واقعی آپ پر جچتا ہے؟؟ آپ نے میرے سوالیہ لہجے کو بھانپا نہیں۔ اس ساری روداد کا مقصد یہ ہے کہ خوشامد کرنے کے لیے آپ کو ٹائمنگ کا بھی علم ہونا چاہیے اورخوشامد کا تیر نشانے پر نہ لگے تو اسے دوبارہ پکڑ کر ہدف پر خود ہی پہنچایا جائے۔

ویسے اس معاملے میں ہمارے کامی بھائی سب سے نمایاں ہیں۔ کامی بھائی کو معلوم ہے کہ کب کس طر ح کی خوشامد کرنی ہے۔ جیسے اگر کبھی صاحب بہادر کوئی لطیفہ سنائیں تو یہ ہمارے پیارے کامی بھائی ہی ہیں جو پیٹ پر ہاتھ رکھ رکھ کر زمین پر ایسی لوٹیاں مارتے ہیں کہ جیسے زندگی میں پہلی بار انہوں نے کوئی مزاحیہ بات سنی ہو، یا پھر کوئی افسر شعر سنا دے تو ان کی ’واہ واہ سے پورا دفتر گونج رہا ہوتا ہے۔ بلکہ دو قدم ایسے آگے بڑھتے ہیں کہ اسی شعر کو کمپوز کرکے اپنی میز کی سائیڈ پر چپکا بھی دیتے ہیں۔ جو آتے جاتے افسر اعلیٰ کی نگاہ سے اوجھل نہیں رہتا۔ جبھی وہ مسکراتے ہوئے کامی بھائی کو ایسے دیکھتے ہوئے جاتے ہیں جیسے پاکستانی ٹیم کسی ایونٹ کے کپ کو دیکھتی ہے۔ کامی بھائی کی اداکاری ایسی ہے شاہ رخ خان بھی شرما جائے۔ بعض اوقات تو وہ صاحبوں کے لطائف سنتے سنتے  ایسے ہنستے ہیں کہ آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں بھی نجانے کہاں سے آجاتیں ہیں۔ خیر ان کی اسیغیر معمولی کارکردگیکی بنا پر وہ جب چاہیں چھٹی کرلیں یا دیر سے آئیں، مجال ہے کوئی اُف بھی کرے۔ ایک بار ہم نے اُن سے کہا کہ کامی بھائی آپ کچھ اوور نہیں ہوجاتے، اگر صاحب کو پتا لگ جائے کہ آپ پکے خوشامدی ہیں، تو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ کبھی بھی نہیں پتا چلتا، جو خوشامد پسند ہوتے ہیں ان کی خوشامد کی سمجھ بوجھ والی حس کب کی آف  ہوچکی ہوتی ہے۔

یہ کامی بھائی ہی تھے جب انہوں نے ایک اور افسر کے سامنے خوشامدی انداز اختیار کیا توانہوں نے جھاڑ پلا دی۔ افسر کا کہنا تھا کہ انہیں مکھن لگانے والے نہیں، کام کرنے والے ماتحت پسند ہیں۔ کامی بھائی نے خوشامد کی بساط پر ایک اور چال چلی اور اک ادا سے کہا ’وا ہ سر واہ۔۔۔ آپکی یہی بات مجھے بھا گئی ورنہ اس سیٹ پر اب تک بیٹھنے والے صرف خوشامد کو ہی تو پسند کرتے تھے۔ شکر ہے آپ ایسے نہیں۔‘  بقول کامی بھائی کے متعلقہ افسر نے انتہائی پرمسرت اندازمیں انہیں ناصرف بیٹھنے کا کہا بلکہ اب وہ گھنٹوں یہ جاننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں کہ وہ پہلےوالوں سے بہتر کس طرح ہیں۔

ویسے کچھگھریلو خوشامدایسی ہوتی ہیں جن کا اظہار کرکے آپ اپنے گھر کے ماحول کو پارلیمنٹ جیسے ماحول سے دور رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً خاتون خانہ کے حسن یا کھانے کی تعریف دل پر پتھر رکھ کر کی جاسکتی ہے۔ خیر یہآئینی حق بیگم صاحبہ کو بھی حاصل ہے کہ وہ کسی چیزکے حصول کے لیے صاحب خانہ کی خوشامد کریں۔

یہ بلاگ لکھنے کے بعد ہم اس شش و پنج میں تھے کہ کس کی خوشامد کرکےاس کو پبلش کرائیں، آپ کی نگاہ میں کوئی ویب سائٹ ہو تو ضرور بتائے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سفیان خان کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز سے وابستہ رہے ہیں۔ کئی برسوں سے مختلف پلیٹ فارمز پر باقاعدگی سے بلاگز بھی لکھتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp