ڈیل یا ڈھیل

بدھ 31 جولائی 2024
author image

عمار مسعود

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مانیں نہ مانیں مگر تحریک انصاف کو ایک فن میں ضرور ملکہ حاصل ہے۔ یہ بیانیہ بنا سکتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے لمحوں میں اس کی ترویج کر سکتے ہیں۔ اس بیانیے کے حق میں جانے کہاں کہاں سے وڈیوز بنا کر وائرل کر سکتے ہیں۔ اس فن میں یہ اتنے مشاق ہیں کہ انہیں کوئی بھی موضوع، شخصیت ادارہ یا آئیڈیا دے دیں یہ حسب منشا اس کا تیا پانچہ بھی کر سکتے ہیں، پھر اس کو بام عروج پر بھی پہنچا سکتے ہیں۔ دراصل یہ برق رفتار کی بورڈ ’جہادیوں‘ پر مشتمل ایک سوشل میڈیا گینگ ہے جس پر ایک سیاسی جماعت کی تہمت بھی لگی ہوئی ہے۔

 کسی شخص کے خیال کو خبر میں بدلنا، کسی کے بیان کو بہتان میں تبدیل کرنا، کسی بھی موضوع کا تمسخر اڑانا، کسی بھی شخصیت کی تذلیل کرنا  یا پھر کسی بھی ایشو کی تضحیک کرنا ان سے بہتر کسی کو نہیں آتا۔  یہ چیزوں کو سمجھنے سے پہلے ہی وائرل کرنے میں یکتا ہیں۔ ان کی ساری سوچ ٹرینڈ، لائکس،  ویوز اور شیئرز کے مابین گھومتی ہے۔ ان کے لیے آج کے دن کے ٹرینڈ کی خبر اہم ہوتی ہے۔ گزشتہ کل ان کے لیے قصہ پارینہ یا ماضی بعید  ہو چکا ہوتا ہے۔

اس بات پر بہت لکھا جا چکا ہے کہ عمران خان نے ماضی میں کون کون سے یو ٹرن لیے۔ کس کس بات پر جھوٹ بولا۔ کس کس ایشو پر جھوٹا بیانیہ بنایا اور بعد میں اپنی غلطی بھی تسلیم کی۔

پینتیس پنکچرز سے شروع ہونے والی کہانی اب تک کئی شرمناک موڑ لے چکی ہے۔ کبھی یہ دعویٰ کہ آئی ایم ایف سے قرض لیا تو خود کشی کر لیں گے، کبھی یہ کہنا کہ جنرل باجوہ سے بہتر سپہ سالار ہی کوئی نہیں۔ ایسی درجنوں مثالیں ہیں جن کو اب دیکھیں تو وہ صرف حماقت لگتی ہیں لیکن اس وقت عمرانی میڈیا نے اسے تاریخ کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیے رکھا۔ ہر ٹاک شو انہی بونگیوں پر ہوا۔ ہر میڈیم سے ان حماقتوں کی ترویج کی گئی اور پھر جب عمران خان نے اپنا موقف بدلا یا عرف عام میں یو ٹرن لیا تو یہ چھوٹی سی خبر بنی۔ جس کی نہ تشہیر کی گئی نہ اس پر قومی بحث شروع ہوئی۔ ان حماقتوں سے واپسی کا سفر میڈیا کو بھی نظر نہیں آیا۔

خود سوچیں کہ جتنے پروگرام اور میڈیا ٹائم پینتیس پنکچر والے الزام کو دیا گیا کیا اتنا ہی وقت عمران خان کے اس تاریخی جملے کو دیا گیا کہ ’نہیں حامد! پینتیس پنکچر تو ایک سیاسی بات تھی‘؟

عمران خان کا کمال یہ ہے کہ اپنے سوشل میڈیا ٹیم کے بل بوتے پر بڑی حماقتوں کی خندقیں سہولت سے عبور کر لیتے ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا ٹیم  ان کی حماقتوں پر پردہ ڈالنا خوب جانتی ہے۔ جیسے وہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ثابت کر سکے، اس ملک میں بارہ موسم ہوتے ہیں۔ دل میں وہ بھی خوب جانتے ہیں کہ پہلی جماعت کے بچے کو بھی پتا ہے، موسم چار ہی ہوتے ہیں مگر چار موسم ماننے میں چونکہ خان صاحب کی سبکی ہوتی ہے اس لیے وہ مصر رہتے ہیں کہ موسم کم از کم بارہ ہوتے ہیں۔

خان صاحب اگر کہتے کہ سال میں پینتالیس موسم ہوتے ہیں تو آج ان کا طاقتور سوشل میڈیا بھی پینتالیس موسم کی خوشخبری سنا رہا ہوتا۔  کسی کو اس بیان سے اختلاف کی جرات نہیں ہوتی۔ اور اگر کوئی سیانا بن کر کہتا کہ بھائی! موسم تو چار ہوتے ہیں اس کے خلاف گالیوں والے وہ گٹر ابلنا شروع ہوتے کہ الامان الحفیظ۔

سوشل میڈیا کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، کہیں نہ کہیں مار کھا جاتا ہے۔ آدمی کتنا ہی چالباز کیوں نہ ہو کہیں نہ کہیں مات ہو جاتی ہے۔ شہہ سوار کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو کہیں نہ کہیں ٹھوکر ضرور کھاتا ہے۔ یہ قانون قدرت ہے اور انسانی فطرت ہے۔ غلطی کہیں نہ کہیں ہونا ہوتی ہے۔

خان صاحب نے بھی اپنے سوشل میڈیا کے زعم میں نو مئی کا اعلان کر دیا۔ سوشل میڈیا نے خان کے بھڑکتے بیان پر پیٹرول چھڑکا اور پھر ہم نے دیکھا کہ نو مئی کا سانحہ ہو گیا۔ یہی وہ پہلی ٹھوکر ہے جس میں خان صاحب کو احساس ہوا کہ جس سوشل میڈیا کو وہ اپنی قوت مانتے تھے اسی سوشل میڈیا نے ان کی نیا ڈبو دی ہے۔  جن کے سہارے نفرت کا بیانیہ بنایا تھا وہ اس کو اس مقام پر لے گئے ہیں کہ جہاں سے نہ خان آگے جا سکتا ہے نہ پیچھے۔ کیونکہ  اب آگے کھائی ہے اور پیچھے گڑھا ہے۔

عمران خان کو اپنی سنگین غلطی کا احساس ہو چکا ہے۔ اسی لیے وہ اب خود پہلے ڈیل کی خبریں تراشتے ہیں، پھر اپنے من پسند صحافیوں کو وہ خبر پیش کرتے ہیں اور پھر اپنے من پسند اینکرز سے ان پر بحث کرواتے ہیں۔ اب تو خان صاحب فوج سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اپنا نمائندہ مقرر کرے تاکہ ہم اس سے مذاکرات کریں۔

حالانکہ ڈیل کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہے۔ نہ کسی نے بات کی ہے نہ کوئی ملاقات ہوئی ہے، نہ کوئی مطالبات مانے گئے ہیں نہ کوئی پیشکش کی گئی ہے۔ بس یہ کسی کے ذہن کا خیال ہے۔ اپنی نومئی والی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے بس یہ ٹرینڈ چلا دو کہ ’حافظ ہمارا بھائی ہے‘۔

لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ڈیل تو درکنا اب تو ڈھیل بھی ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ خان صاحب سے اصل میں غلطی یہ ہوئی کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا نعرہ لے کر بڑھے  اور بات اینٹی پاکستان تک پہنچ گئی۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونا تو اچھی بات ہے، یہ کہنا کہ فوج کو آئین کے دائرے میں رہنا چاہیے اچھی بات ہے۔ لیکن  خان کے سپورٹرز کی جانب سے  وطن کے پاسپورٹوں کو نذر آتش کرنا، سبز پرچم کو پیروں تلے روندنا، ’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘ کا نعرہ لگانا، آئی ایم ایف سے امداد بند کرنے کی سازش کرنا، امریکا میں پاکستان کی شکایتیں لگانا یہ وہ جرائم ہیں جو اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں اینٹی پاکستان ہیں اور یہ سوچنا کہ ان جرائم کے بعد بھی کوئی ڈیل ہو جائے گی دیوانے کا خواب ہے۔ حالات تو یہ ہیں کہ اب ڈیل تو نہیں البتہ ڈھیل ختم ہونے کا وقت آ چکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp