ساون رت ہے، ہر طرف رم جھم کے گیت گونج رہے ہیں۔ دو فلمی گانے ایسے ہیں جنھیں جتنی بار بھی سنا جائے ان کے لطف میں کمی نہیں آتی۔ ایک ہے دیوانہ ہوا بادل اور دوسراآج موسم بڑابے ایمان ہے۔ یہ دونوں گانے گلوکار محمد رفیع کے گائے ہوئے ہیں۔ بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے نوجوان اور سینئر گلوکار ٹی وی شوز اورکانسرٹس میں عظیم گلوکاروں کے شاہکاراورسدا بہار گانے گاتے ہیں۔ ان گانوں کی نقل سن کر کبھی کبھار اکتاہٹ ہونے لگتی ہے اور بندہ سوچتا ہے کہ’ اوریجنل اوریجنل ہوتا ہے بھائی‘، لیکن یہ احساس رفیع کے اکثر گانوں پر شدت سے ہوتا ہے۔ وہ اس لیے کہ محمد رفیع کی آواز و انداز کا اپنا ایک منفرد رنگ ہے جو کسی اور کے گلے پر جچتا ہی نہیں۔
محمد رفیع کا بچپن اور نوجوانی اندرون بھاٹی گیٹ، لاہور کے گلی کوچوں میں گزری۔ اس کے بعد ان کا خاندان کچھ عرصہ بلال گنج میں رہا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کے بچپن کے دنوں میں گلی میں ایک فقیر اونچے سروں میں صدا لگایا کرتا تھا جسے سن کرمحمدرفیع بھی اونچے سروں میں گاناشروع کر دیتے، جسے سن کر لوگوں کو ان کے ہنر کا احساس ہوا، اوران کے بھائی نے انھیں استاد وحید خان سے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم دلوانے کا بندوبست کیا۔
میں رفیع صاحب کے گانے سنتے ہوئے اکثریہ بات سوچتا ہوں کہ کیسا خوش بخت تھا وہ فقیر جسے خیرات میں تو جو ملا سو ملا لیکن اس نے دنیاکو محمد رفیع دریافت کر کے دیا۔ اس کے بعد ایک اور واقعہ ہوا، لاہور میں اس زمانے کے سپر سٹارکے ایل سہگل کا شو تھا۔ انھیں سننے کے لیے ایک دنیاجمع تھی۔ لائٹ چلے جانے کی وجہ سے سہگل صاحب کو سٹیج تک آنے میں دیر ہو گئی تووقت گزارنے کے لیے محمد رفیع کو سٹیج پر چڑھا دیا گیا۔ بس یہیں سے محمد رفیع کی زندگی کا ایک نیا دورشروع ہوا۔ رفیع صاحب نے گانا شروع کیا اورمجمع پر سکوت طاری ہو گیا۔ سوچیے تو، اس فقیر کا گلی میں آنا، گانا گاتے ہوئے صدا دینااور پھر لاہور میں کے ایس سہگل کے شور میں موقع ملنا، ان میں سے کوئی بھی کڑی رہ جاتی تو آج سازوآواز کی دنیا کا حسن کتنا پھیکا ہوتا۔
بھارتی فلمی صنعت کو آغاز ہی سے ایک سے بڑھ کر ایک گلوکار ملا، کسی کی آواز بہت منفرد تھی تو کسی کا گلا اونچے سروں کوسہولت سے نبھانا جانتا تھا۔ کوئی سرتال کا بادشاہ تھا تو کوئی عظیم لے کار۔ لیکن تین گلوکار ایسے ہیں جو مقدار اور معیار ہر حوالے سے سب سے اوپر گنے جاتے ہیں۔ لتامنگیشکر، کشورکمار اورمحمد رفیع۔ اورمیرے نزدیک رفیع صاحب کو ان سب پر سبقت حاصل ہے۔ وہ یوں کہ وہ ہر موڈ کا گانا الگ اور شاندارانداز سے گاتے تھے۔ اداسی کا گیت ہو تو ان کی آواز سے زیادہ اداس کوئی اور آواز نہیں لگتی، اور شوخی اورچنچل پن کی ضرورت ہوتو یوں لگتا ہے محمد رفیع سے بہتر کوئی ہو ہی نہیں سکتا۔ دھیمے سروں میں گاناہو، چاہے بہت اونچے سروں میں ان کی آواز کا رس کانوں کو یکساں بھلا لگتا ہے۔ کشور کمار نے ’ہاتھی میرے ساتھی کا گیت’ نفرت کی دنیا کو چھوڑ کر‘ گانے سے معذرت کر لی تھی کیونکہ اس میں آواز کی لے کافی اونچی تھی لیکن رفیع نے یہ گیت گایا اور بہت مقبول ہوا۔ رفیع کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب نوشاد نے انھیں گانے کا موقع دیا۔ رفیع کا ذکر چلے توکے ایس سہگل اور نوشاد کو ضروریادکرنا چاہیے کہ جنھوں نے اس ہیرے کو پہچانا اور خوب تراشا۔
رفیع کو ایک اور برتری بھی حاصل ہے۔ بڑے گلوکاروں کو کاپی کر کے کئی بڑے نام پیدا ہوئے، مثلا لتا کی پیروکار شریا گھوشال اب گائیکی کی دنیا کا ایک بڑا نام بن چکا ہے، کشور کمار کو باقاعدہ کاپی کرنے والے کمار وسانو بھی چھائے ہوئے ہیں لیکن محمد رفیع کونقل کرنے اور ان جیسا تاثر پیدا کرنے والا کوئی نہیں۔ کسی گلوکار کی تعریف کرتے ہوئے اکثر یہ بات کہہ دی جاتی ہے کہ فلاں نے ہزاروں گانے گائے لیکن رفیع صاحب نے واقعی ہزاروں گانے گائے اور مشہور ہونے والوں گانوں کا تناسب بھی شایدسب سے زیادہ انھی کا ہے۔ اور صرف ہندی نہیں بلکہ انھوں نے کئی پنجابی گانے بھی گائے، مثلا ‘جگ والا میلا یارو تھوڑی دیر دا’ اور ‘چٹے دند ہنسنوں نیئوں رہندے تے لوکی بھیڑے شک کردے’!جیسے شاہکار گانے آج بھی مقبول ہیں۔ انھوں نے غزلیں بھی گائیں، اوراپنے الگ انداز سے گائیں، خاص طور پر غالب کی غزلیں تو نہایت عمدگی سے گائی گئی ہیں۔
کہتے ہیں موسیقی سرحدوں کی محتاج نہیں ہوتی اور محمد رفیع تو ہندوستان کی تقسیم سے پہلے ہی مشہور ہو چکے تھے۔ رفیع نے لاہور ریڈیو پر پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی۔ انھوں نے 1946میں ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ فلم جگنو میں گیت بھی گایا جو کافی مقبول ہوا اوراب تک ہے، ’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘۔ سو لاہور سے انھیں خاص نسبت تھی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ پاکستان میں اپنے فن کا مظاہرہ نہ کر سکے۔ 1962 میں پاکستان میں ان کا کنسرٹ انڈیا اور چین کے درمیان پیدا ہونے والے سرحدی تناؤ کے باعث ملتوی ہو گیا۔ 1961 میں وہ اپنے والد کے انتقال پر اپنے بیٹے خالد کے ساتھ آخری بار لاہور آئے اور بلال گنج میں اپنا آبائی گھر دیکھنے بھی گئے۔ ان کی بہو کے مطابق وہ ریڈیو پاکستان شوق سے سنتے جس کی بڑی وجہ صابری برادران کی قوالی سننا ہوتاتھا۔ محمد رفیع کے چھوٹے بھائی محمد صدیق بلال گنج میں رہتے رہے، اور کچھ عرصہ قبل یہیں ان کا انتقال ہوا۔