بلوچ یکجہتی کمیٹی نے صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے کامیاب مذاکرات کے بعد صوبہ بھر میں دھرنے ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور حکومت کے درمیان کامیاب مذاکرات کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آج سے صوبے بھر کی تمام قومی شاہراہیں کھول دی جائیں گی۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کو رہا کیا جائے گا، صوبے میں موبائل نیٹ ورک جلد بحال اور تمام رکاوٹیں ہٹا کر تمام بند راستے کھول دیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور پولیس آمنے سامنے، مظاہرین نے پولیس موبائل کو آگ لگا دی
گوادر کے ڈپٹی کمشنر ہاؤس میں صوبائی حکومت اوربلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں وزیرداخلہ بلوچستان میرضیااللہ لانگو اور صوبائی وزیر میر ظہور بلیدی بھی موجود تھے۔
حکومتی مذاکراتی ٹیم میں رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان، کمشنر مکران ڈویژن داؤد خلجی، ڈپٹی کمشنر گوادر حمودالرحمان، ڈی آئی جیز سمیت دیگر حکام بھی شامل تھے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں ’حق دو تحریک‘ کے چیئرمین حسین واڈیلا، بی این پی مینگل کے ماجد سورابی، جے یوآئی کے مولانا عبدالحمید سمیت دیگر رہنماوں نے ثالث کا کردارادا کیا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: کوئٹہ و گوادر سمیت مختلف شہروں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے جاری،صورتحال کشیدہ
اس موقع پر وزیر داخلہ بلوچستان میرضیا لانگو نے کہا کہ وہ وزیراعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر 4 روز قبل گوادر پہنچے تھے۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران حکومت، انتظامیہ اور اداروں نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ پہلے ہی روز کہہ دیا تھا کہ ہرمسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے، عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ احتجاج ضرور کریں مگر احتجاج کی آڑ میں سیکیورٹی فورسز پر حملے نہ کریں اور املاک اور عوام کو نقصان نہ پہنچائیں۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کی آڑ میں کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے خلاف سوچی سمجھی سازش کے تحت جنگ کی جارہی ہے، وزیراعلیٰ بلوچستان
واضح رہے کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں مرین ڈرائیو کے مقام پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیراہتمام اتوار کی شب ’راجی مچی‘ نامی اجتماع کا انعقاد کیا گیا تھا جو دھرنے کی شکل اختیار کرگیا تھا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا اور مظاہرین نے پولیس موبائل کو آگ لگا دی تھی۔
مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان تصادم کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر نوشکی، قلات اور مستونگ سمیت ملحقہ علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی جبکہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بھی دھرنے کا انعقاد کیا گیا تھا۔