قومی اسمبلی میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے خلاف قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ایوان کا دن مختص کرتے ہوئے معمول کا ایجنڈا مؤخر کر دیا گیا اور باقی ایجنڈا اگلی کارروائی کے دن تک مؤخر کرنے کی تحریک منظور کرلی گئی۔
قومی اسمبلی میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی اور اسماعیل ہانیہ کی شہادت سے متعلق مذمتی قرار داد منظور کرلی گئی، متن کے مطابق قرار داد میں قومی اسمبلی کی فلسطینی عوام پر اسرائیل کی جارحیت 44ہزار فلسطینی عوام کی شہادت اور ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی مذمت کی گئی۔
قرارداد کے متن کے مطابق فلسطینی عوام پر اسرائیلی بربریت کی مذمت، اور اقوام متحدہ سے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی میں فلسطینی عوام کے ساتھ مکمل اظہار یک جہتی کی گئی۔
قرارداد کے مطابق قومی اسمبلی میں تمام پارلیمانی جماعتیں گزشتہ 9ماہ سے فلسطینی عوام کے خلاف جاری اسرائیلی جبر و بربریت پر متحد ہو کر غم و غصے کا اظہار کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں: اسماعیل ہنیہ کی شہادت، حکومت کا ملک بھر میں یوم سوگ کا اعلان
تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل نے غم و غصے میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور ایسے واقعات کو فلسطینیوں کے خلاف جاری ظلم و بربریت کو روکنے اور خطے میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی سوچی سمجھی سازش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ایوان نے فلسطین میں اسرائیل کی طرف سے جاری ریاستی جبر و بربریت کو امت مسلمہ اور دنیا کے لیے ایک المیہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی۔ فلسطینی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اسماعیل ہنیہ کے خاندان اور فلسطینی عوام کے ساتھ تعزیت کا اظہار کیا۔
اس دوران وزیر اعظم نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس ایوان سے اس قرارداد کے ذریعے مضبوط پیغام جائیگا، تمام اراکین کا شکریہ کہ انہوں نے اس قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کیا۔
’تاریخ کے سخت ظلم و ستم اور جبر کا فلسطینیوں کو سامنا ہے‘
انہوں نے کہا کہ صیہونی فوجیوں کی طرف سے 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کردیا گیا ہے، صیہونی ریاست تمام حدیں پار کر چکی ہے۔ عالمی انصاف کی عدالت اپنا فیصلہ دے چکی ہے، اگر انصاف کے فیصلوں پر عملدرامد نہ کیا گیا تو بے چینی پھیلے گی۔
’تاریخ میں ان قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائیگا‘
انہوں نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر آج پاکستان میں سوگ منایا جا رہا ہے، پاکستان سے فلسطینیوں کی مدد کے لیے امدادی سامان اور ادویات بھجوائی جائینگی اور فلسطینی طلبا کو پاکستان میں تعلیم دی جائیگی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور وزیر اعظم ہاؤس میں اسماعیل ہنیہ کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی جس میں وزیر اعظم اور سینیئر وزرا نے شرکت کی۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی کابینہ فلسطینیوں پر بربریت اور اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتی ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت سفاکی کا بدترین واقعہ ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ واشگاف الفاظ میں اظہارِ یک جہتی کرتے ہوئے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت فلسطینیوں کی آزادی کے خواب کو مزید جلا بخشے گی۔
انہوں نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بجلی کا بحران ہے، اس کوحل کرنے کی کوشش کررہے ہیں، نوازشریف دور میں 20،20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہوا، ابھی بھی کریں گے۔
’ایل این جی کے پلانٹس لگائے گئے اوربجلی کی پیداوار بڑھائی گئی‘
شہباز شریف نے کہا کہ چین نے سی پیک کے ذریعے سرمایہ کاری کاعندیہ دیا، اور بجلی بحران حل کرنے میں تعاون کیا، تاریخ کی تیز ترین رفتار پر منصوبے لگائے گئے۔
’ہمیں عوام کے مسائل کا پورا ادراک ہے‘
وزیر اعظم نے کہا کہ دیگر حکومتوں نے کون سے ڈیم بنائے، باتیں کرنا بڑا آسان ہے، پرائیویٹ سیکٹر کو سرمایہ کاری کی ہمت ہوئی اور انہوں نے بھی کام کیا۔
’بجلی پر سیاست عوام کی توہین ہے‘
وزیر اعظم نے کہا کہ پاورسیکٹر، ایف بی آر کو کرپشن سے پاک کرنے میں کامیاب ہوگئے توکشتی پار لگ جائے گی۔ اگر ان دونوں اداروں کو کرپشن سے پاک نہ کرسکے تو خدانخواستہ کشتی ڈوب جائے گی۔
’بجلی کے ساڑھے 4ارب ڈالر کے منصوبے لگائے گئے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آج قوم کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہمارا ایجنڈا ہے بجلی سے متعلق مسائل کوحل کریں، بجلی بحران حل کرنا اتحادی حکومت اور پوری قوم کا ایجنڈا ہے۔
وزیراعظم نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ ایک جماعت سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ 10 سال میں انہوں نے کیا کیا؟ 350ڈیم بنانے کے دعویداروں نے 10، 15میگا واٹ بجلی بھی پیدا نہیں کرسکے۔
’احتجاج والے سیاست برائے سیاست کررہے ہیں‘
وزیر اعظم نے کہا کہ یہ جو آج احتجاج کررہے ہیں یہ سیاست برائے سیاست کررہے ہیں، ہم سیاست برائے سیاست نہیں کرتے۔ انہوں نے خود کیا کیا ہے جو تنقید کرتے ہیں۔