سپریم کورٹ پاکستان کے سینیئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ اسلام آباد کے علاقے بارہ کہو میں جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے دائر درخواست خارج کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ عدالتوں میں 22 لاکھ مقدمات زیرالتوا ہونے کی وجہ فضول مقدمے بازی ہے۔
مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے نہ درخواست گزار پر 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: ماحولیاتی کانفرنس سے خطاب میں جسٹس منصور علی شاہ نے کیا کہا؟
اپنے تحریری ریمارکس میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مفروضوں پر مبنی اس طرح کی فضول مقدمے بازی سے نہ صرف عدالتوں کا وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ مصنوعی طور پر زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے انصاف کا نظام سست روی کا شکار ہو جاتا ہے اور واقعتاً انصاف کے متقاضی مقدمات توجہ سے محروم رہ جاتے ہیں۔
درخواست گزار خاتون نے سنہ 2020 میں والد کے ایک کنال رقبے کے مکان کی تقسیم کے لیے ماتحت عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ مقامی عدالت نے لوکل کمیشن مقرر کر کے جائیداد کی قیمت مقرر کر دی تھی جس پر درخواست گزار نے قیمت پر اعتراض اٹھا دیا۔
اس کے بعد عدالت نے نیلام کار مقرر کر کے نیلامی کے ذریعے قیمت مقرر کی جس کی رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی لیکن ایک بار پھر درخواست گزار خاتون نے اعتراض اٹھا دیا۔
جب مقامی عدالت نے اعتراض مسترد کر دیا تو اس پر درخواست گزار خاتون نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر دی جو کہ منظور ہو گئی۔ اس پر درخواست گزار خاتون کی درخواست میں نامزد ایک فریق نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جو کہ منظور ہو گئی اور قیمت مقرر کئے جانے سے متعلق ماتحت عدالت کا فیصلہ بحال ہو گیا۔ اس پر درخواست گزار خاتون سپریم کورٹ پہنچ گئی لیکن سپریم کورٹ نے نہ صرف درخواست مسترد کی بلکہ پچاس ہزار جرمانہ بھی عائد کیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ قانون کا جائزہ لینے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ خاتون کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواست مکمل طور پر فضول، خواہ مخواہ مقدمے بازی کو طول دینے اور فریق ثانی کو دباؤ میں لانے کا ایک حربہ ہے۔ درخواست گزار خاتون، جائیداد کی نیلامی کے عمل کو روک کر خواہ مخواہ اپنی ماں اور بہن بھائیوں کو جائیداد کے قانونی حق سے محروم رکھنا چاہتی ہے۔
مزید پڑھیں: حالات حاضرہ اور سیاست اکثر عدالت پر اثرانداز ہوتے ہیں، جسٹس منصور علی شاہ
انہوں نے لکھا ہے کہ اس طرح کی مقدمے بازی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے اور اس طرح کی مقدمے بازی کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اس طرح کے مقدمے نظام انصاف پر غیر ضروری بوجھ ڈالتے ہیں جنہیں روکا جانا چاہیے۔














