پاکستان سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ حالات حاضرہ اور سیاست اکثر اوقات عدالت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں
شکاگو میں ایسٹ ویسٹ یونیورسٹی کی جانب سے عدالتی اصلاحات میں دلچسپی رکھنے والے اہم پاکستانی نژاد امریکیوں اور دیگر معزز مہمانوں کے اعزاز میں عشائیے میں گفتگو کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کا تحفظ ضروری لیکن عدالتیں عام لوگوں کی رسائی میں ہونی چاہییں۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی اصلاحات لوگوں کی مشکلات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کی جانی چاہییں۔
جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ موجود نظام شخصیات کے مرہون منت اور چیف جسٹس پر غیر ضروری بوجھ کا باعث بنتا ہے۔
’ثالثی نظام عدالتوں پر بوجھ کم کرسکتا ہے‘
انہوں نے مقدمات کے ثالثی نظام کے ذریعے فیصلوں پر زور دیا جس سے عدالتوں پر بوجھ کو کم کیا جا سکے۔
انہوں نے عدلیہ کے بعض شعبوں میں عالمی معیار کے کام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم نے عالمی معیار کا اے ڈی آر قانون کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تاخیر سے ہونے والے فیصلے اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے عدالتی نظام میں جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے استعمال پر بھی زور دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کو چانسلر ایوارڈ آف ایکسیلینس دیا گیا
حاضرین کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا کام قانون سازی نہیں بلکہ اس کی تشریح کرنا ہے۔ انہوں نے عدلیہ اور مقننہ کے فرائض کی تقسیم کے بارے میں بھی روشنی ڈالی۔
تقریب کے آخر میں انہیں چانسلر ایوارڈ آف ایکسیلینس دیا گیا۔ عشائیے میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد نے شرکت کی۔ عشائیے میں شکاگو میں پاکستانی قونصل جنرل طارق کریم ، آرٹس سے متعلق صدر جو بائیڈن کی مشیر، شکاگو میں امیگریشن کورٹ کے جج اور دیگر معززین نے شرکت کی۔