پیرس اولمپکس 2024: افغانستان کی پہلی بریک ڈانسر اپنے خواب کی تعبیر پالے گی؟

پیر 5 اگست 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

افغانستان کی پہلی خاتون بریک ڈانسر منیزہ طالش پیرس اولمپکس 2024 میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔ وہ پناہ گزینوں کی اولمپک ٹیم کی رکن کے طور پر اولمپکس میں حصہ لیں گی۔ بریکنگ گیم، فن رقص اور ایکروبیٹکس کے امتزاج سے کھیل کے مقابلے کی ایک شکل ہے جسے پہلی بار اولمپکس 2024 میں شامل کیا گیا ہے۔

رواں ماہ 9 اگست سے شروع ہونے والے مقابلوں میں 16 بی۔گرلز اور 16 بی۔بوائز انفرادی (سولو) مقابلوں میں آمنے سامنے ہوں گے اور گولڈ میڈل جیتنے کے لیے اپنی جان لڑائیں گے۔

افغانستان کی پہلے بریک ڈانسر منیزہ طالش نے اولمپکس گیمز میں شرکت کا اپنا خواب پورا کرنے کے لیے افغانستان چھوڑ کر اسپین میں پناہ حاصل کی تھی۔ میڈرڈ میں قیام کے 3 برس بعد پناہ گزینوں کی اولمپک ٹیم کی رکن کے طور پر وہ پیرس گیمز میں حصہ لینے کی تیاری کر رہی ہیں۔

مزید پڑھیں:پیرس اولمپکس: 100 میٹر ریس میں منفرد ریکارڈ قائم

1970 کی دہائی میں نیویارک کی سڑکوں پر آرٹ کی ایک قسم کے طور پر جنم لینے والے اسٹریٹ ڈانس میں سکسٹین بی۔گرلز اور سکسٹین بی۔بوائز ٹیمیں مقابلہ کریں گی۔بی۔گرلز ٹیم کی 21 سالہ افغان بریک ڈانسر منیزہ طالش اس موقع پر خوشی اور اداسی کے ملے جلے جذبات محسوس کر رہی ہیں۔

میڈرڈ کے مضافاتی علاقے ویلیکاس میں کھیل کے تربیتی سیشن کے دوران منیزہ طالش نے رائٹرز کو بتایا کہ میں دوسری افغان لڑکیوں کے ساتھ افغان ٹیم کا حصہ بن کر اولمپکس میں شریک دوسری ٹیموں کے ساتھ مقابلہ کرنا پسند کرتی لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔ میں بہت خوش ہوں کیونکہ کچھ چند ماہ پہلے تک یہ صرف ایک خواب تھا لیکن اب میں اپنے خواب کے اندر رہ رہی ہوں۔ میں خود کو دیکھ کر کہہ سکتی ہوں کہ میں یہاں ہوں، میں نے اسے پورا کر دیا ہے۔

منیزہ نے اپنی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ جب میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک آدمی اپنے سرکے بل پر گھوم رہا تھا، میں نے خود کلامی کی کہ میں اپنی زندگی میں یہی کرنا چاہتی ہوں اور 3 ماہ بعد مجھے تربیت شروع کرنے کے لیے کابل میں ایک کلب مل گیا۔ چھوٹے سے بریک ڈانس کلب کے 56 ارکان میں واحد لڑکی تھی۔

مزید پڑھیں:پیرس اولمپکس میں تمغوں کی دوڑ، چین بدستور سب سے آگے

منیزہ کے مطابق ان کے اس شوق پر صرف ان کے خاندان نے ہی اعتراض نہیں کیا بلکہ جب افغانستان کی پہلی بریک ڈانسر گرل کے بارے میں خبریں پھیلیں تو انہیں موت کی دھمکیاں ملنا شروع ہو گئیں۔ قدامت پسند افغان ہر قسم کے رقص کو ناپسند کرتے ہیں اور خواتین کی جانب سے عوامی سطح پر شرکت پر تو اور بھی زیادہ اعتراض کرتے ہیں، اور کچھ تو پر تشدد طریقے سے مخالفت کرتے ہیں۔

منیزہ نے بتایا کہ ہمارے کلب کو بم سے اُڑانے کی 3 دھمکیاں موصول ہوئیں اور پولیس نے ہمارے کلب پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے ایک شخص کو گرفتار کرنے کے بعدہمیں کلب بند کرنے کا حکم دیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف ہمیں بلکہ اس علاقے کے لوگوں کو بھی ایک بڑا خطرہ لاحق تھا۔ اگست 2021 میں، طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد موسیقی اور رقص کو غیراسلامی قرار دیتے ہوئے ان پر پابندی عائد کردی۔

منیزہ نے کہا کہ طالبان کے آنے کے بعد میں نے موت کے خوف کی وجہ سے افغانستان نہیں چھوڑا بلکہ اس لیے چھوڑا کہ بریک ڈانس میری زندگی ہے۔ میں اس وقت یہاں اس لیے ہوں کیوں کہ میں نے اپنے خواب کی تعبیر پانے کا انتخاب کیا ہے۔

مزید پڑھیں:پیرس اولمپکس میں پاکستانی ایتھلیٹس کی مایوس کن کارکردگی، شوٹر غلام مصطفیٰ بھی ہار گئے

منیزہ نے کہا کہ اسپین میں پناہ گزین کا درجہ ملنے سے پہلے انہوں نے اپنے کلب کے دوسرے ارکان کے ساتھ جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے تھے، پاکستان میں ایک سال گزارا تھا۔ انہوں نے اپنی تربیت جاری رکھی لیکن ان کا ریفوجی اولمپک ٹیم سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ پھر 2024 کے اوائل میں دوستوں کی کوششوں سے پناہ گزین اولمپک ٹیم نے منیزہ کو ڈھونڈ لیا۔ وہ انہیں میڈرڈ لائی اور پیرس اولمپکس میں اسپاٹ دلوانے کے بعد ان کے لیے ہفتے میں 6 دن کی تربیت کو اسپانسر کیا۔

قریباً اسی دوران ان کی والدہ، 2 بھائیوں اور ایک بہن کو بھی پناہ گزین کا درجہ دے دیا گیا اور وہ بھی میڈرڈ میں ان کے ساتھ آملے، جس سے منیزہ کو مزید ہمت اور حوصلہ ملا۔ منیزہ نے کہا کہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں جو کچھ کررہی ہوں، وہ افغانستان کی خواتین، وہاں کی لڑکیوں کے لیے کچھ کر رہی ہوں۔ میں صرف باتیں نہیں کرنا چاہتی، میں وہاں جا کر کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ میں جو کہتی ہوں اسے کرنا بھی چاہتی ہوں۔

منیزہ تسلیم کرتی ہیں کہ اولمپکس کی تیاری کرنا واقعی مشکل ہے۔ میں ایک ایسے شخص کے ساتھ کام کر رہی ہوں جس کے پاس 21 سال کا تجربہ ہے، لہٰذا جب میں اولمپکس کی تیاری کر رہی ہوں تو مجھے ان تمام برسوں کی محنت کو کامیابی میں بدلنا ہوگا کہ جو میں نے اس مقام کے حصول کے دوران کھو دیے۔

مزید پڑھیں:پیرس اولمپکس: چینی کھلاڑی کی ہم وطن پلیئر کو شادی کی پیشکش، جواب کیا ملا؟

منیزہ کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ پیرس اولمپکس سے تمغہ حاصل کریں گی کیونکہ پوڈیم پر جگہ حاصل کرنا ان کی ترجیح نہیں۔ میں اپنے دوستوں اور ان کے خوابوں اور امیدوں کے لیے مقابلہ کروں گی، اس یقین کے ساتھ کہ ان کی موجودگی سے ایک اہم پیغام جائے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ افغان لڑکیاں کبھی ہتھیار نہیں ڈالیں گی، آپ کسی افغان لڑکی پر جو بھی دباؤ ڈالیں اسے محدود کریں، یا اسے قید بھی کریں، وہ یقینی طور پر اس سے نکلنے کا راستہ تلاش کرے گی اور یقینی طور پر اپنے مقاصد کو حاصل کرے گی، ہم لڑیں گے اور جیتیں گے۔

یاد رہے کہ 1999 سے 2002 کے دوران بین الاقوامی اولمپک کمیٹی (آئی او سی) نے خواتین کے خلاف امتیازی سلوک پر افغانستان پر پابندی عائد کر دی تھی۔ امسال طالبان کے کنٹرول میں پہلی بار 6 افغانی کھلاڑیوں کو کھیلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی گی ہے۔ کھلاڑی پرانی افغان حکومت کے جھنڈے تلے مقابلہ کریں گے کیونکہ طالبان کو بین الاقوامی برادری تسلیم نہیں کرتی۔

مزید پڑھیں:ترک اولمپکس ایتھلیٹ کی پسٹل شوٹنگ کا سوشل میڈیا پر چرچا کیوں؟

گزشتہ 3 گرمائی اولپمکس کھیلوں کے دوران پناہ گزینوں کی اولمپک ٹیم کے حجم میں اضافہ ہوا ہے، جو بڑھتے ہوئے عالمی پناہ گزینوں کے بحران کی عکاسی کرتا ہے۔ پیرس اولمپکس 2024 کے لیے پناہ گزینوں کی ٹیم 11 ممالک کے 36 کھلاڑیوں پر مشتمل ہے اور اس میں 12 کھیل شامل ہیں۔

آئی او سی پناہ گزین کھلاڑیوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ’100 ملین میں سے ایک‘ مہم چلا رہا ہے جو دنیا کے 100 ملین بے گھر افراد کی نمائندگی کرتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp