صرف چند ہفتوں میں 300 نشستوں کے ایوان میں 200 نشستیں رکھنے والی بنگلہ دیش کی ایک انتہائی مضبوط حکومت منہ کے بل جا گری اور عوامی غیض و غضب نے ملک کے بانی تصور کیے جانے والے شیخ مجیب الرحمٰن کا مجسمہ تک گرا دیا۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد چوتھی بار وزیر اعظم بنی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا لیکن پھر اچانک ایسا کیا ہوا جس نے اتنے متشدد مظاہروں کوجنم دیا جن میں سینکڑوں لوگ جان سے گئے اور بالآخر وزیراعظم کو ملک چھوڑ کر بھارت میں پناہ لینی پڑی۔
یہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بڑا دھچکا ہے، ماریہ سلطان
ساؤتھ ایشین اسٹریٹجک اسٹیبلٹی انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر جنرل ماریہ سلطان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح بنگلہ دیش میں حکومت کا تختہ الٹایا گیا اس کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا رویہ بہت جارحانہ ہو چکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش: شیخ حسینہ واجد مستعفی، آرمی چیف کا مخلوط عبوری حکومت بنانے کا اعلان
ماریہ سلطان نے کہا کہ بھارت میں جس طرح سے شہریت کے لیے این آر سی قانون لایا گیا اسی طرز پر بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے ذریعے سے ایک خاص مستقل کلاس پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو وہاں کے حکمران طبقے پر مشتمل ہو۔
انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد 20 سال بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہیں اور اس طرح کے انقلابات ایک دن میں نہیں آتے گو کچھ حکومت مخالف عناصر کام ضرور کرتے ہیں لیکن لوگوں کے اندر غم و غصہ پلتا رہتا ہے جو ایک دن ابل پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد نے مطلق العنان حکمرانی کی خاطر بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے ذریعے سے ایک ایسی کلاس پیدا کرنے کی کوشش کی جو پہلے ہی سے مراعات یافتہ تھی جس نظام کے ذریعے مل میں کام کرنے والا مزدور مل مزدور ہی رہتا۔
مزید پڑھیے: بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد بھارت فرار ہونے پر کیوں مجبور ہوئیں؟
ماریہ سلطان نے کہا کہ حسینہ واجد کی حکومت ایک بہت سخت گیر، متشدد پولیس اسٹیٹ تھی جس کو بھارت کی تائید حاصل تھی اور اس حکومت پر بھارت نواز حکومت ہونے کا تاثر بہت گہرا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر بنگلہ دیش میں یہ متشدد مظاہرے امیر اور مفلوک الحال لوگوں کے درمیان تھےاور ایک ایسے نظام کے خلاف تھے جس میں امرا مستقل امیر ہو رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد کی اس حکومت نے بہت ظالمانہ قتل کروائے اور اب وہ کوٹہ سسٹم کے ذریعے سے طاقت کے توازن کو مستقل اپنے حق میں کرنا چاہتی تھیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں یہ تبدیلی بھارت کے لیے بھی بہت بڑا سبق ہے کیوں کہ بھارتی معاشرے میں جس طرح بے پناہ حقوق سے مستفید ہونے والی ایک ہندو کلاس پیدا کی جا رہی ہے اس کا اثر کچھ دہائیوں کے بعد سامنے آئے گا جب لوگ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔
ماریہ سلطان نے کہا کہ بنگلہ دیش کی ترقی میں امریکا کا بہت کردار ہے اور جہاں امریکا ہو وہاں طاقت کا ارتکاز ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج حسینہ واجد ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر نکل گئیں لیکن ان کے ساتھ کوئی نہیں نکلا جس کا مطلب یہ ہے کہ صدام حسین کی طرح وہ بھی ایک مطلق العنان حکمران تھیں۔
مزید پڑھیں: بنگلہ دیش میں عبوری حکومت سنبھالنے والے جنرل وقارالزمان کون ہیں؟
ان کا کہنا تھا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بنگلہ دیش کا معاشرہ ایک متشدد معاشرہ ہے اور اگر آپ دیکھیں تو وہاں ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کے قتل ہونے کے واقعات بھی عام ہیں جس کا مطلب ہے کہ اس معاشرے میں تشدد اوپر سے نیچے تک سرایت کر چکا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ سلوک حکومت جانے کا سبب بنا، مسعود خالد
پاکستان کے سابق سفیر مسعود خالد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حسینہ واجد 2 دہائیوں سے حکومت میں تھیں اور وہ ہر طرح سے اپنی من مانی کر رہی تھیں۔
مسعود خالد نے کہا کہ اپوزیشن کے ساتھ جو ان کا سلوک تھا اور پھر جماعت اسلامی کے ساتھ جیسا سلوک روا رکھا گیا اور پھر اس کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت میں بھی کمی ہوئی تھی اور ان سب وجوہات کے باعث عوام کی برداشت جواب دے رہی تھی اور ان کا غیض و غضب قابو سے باہر ہو رہا تھا۔ انہوں ںے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش میں سیاسی تقسیم بہت زیادہ ہے، 2خواتین 2 سیاسی جماعتوں کی سبراہی کرتی ہیں اور لوگ 2 حصوں میں تقسیم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2 ہفتوں کے اندر اتنے لوگ مار دیے گئے، آپ کیسے اتنے نوجوانوں کو مار سکتے ہیں اور پھر فوج کے اوپر بھی بات آ رہی تھی، لوگ کہہ رہے تھے کہ فوج حکومت کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔
مسعود خالد نے کہا کہ اس واقعے کو بھارتی حکومت کی شکست سے تو تعبیر نہیں کر سکتے ہاں یہ اس کے لیے ایک جھٹکا ضرور ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حسینہ واجد پر بھارت نواز ہونے کی چھاپ بہت گہری تھی اور اس بات کے خلاف بھی لوگوں میں ایک ردعمل تھا لیکن 2 ہفتوں میں اتنے لوگوں کا مرجانا بھی کوئی مذاق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح شیخ مجیب الرحمٰن کے مجسمے توڑے گئے اس سے معلوم ہوا کہ جو گڑھا حسینہ واجد دوسروں کے لیے کھود رہی تھیں اور خود ہی اس میں گر گئیں۔
مسعود خالد نے کہا کہ حسینہ واجد کو چاہیے تھا کہ پہلے مرحلے پر ہی استعفٰی دے دیتیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی فوج کی جانب سے عبوری حکومت بنائی گئی ہے جو فی الحال تو غیر جانبدار ہی رہے گی۔
سابق سفیر نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ ان حالات میں بہت محتاط سفارت کاری کا مظاہرہ کرے۔